زمین کا خلا سے نظارہ

ہند۔ امریکی خلاباز راجہ چاری نے عالمی خلائی اسٹیشن پر ۱۷۷ دن بسر کیے ۔وہاں انہوں نے خلا میں پہلی بار گردش کا تجربہ کرنے کے علاوہ زمینی فضا کا سرسری طور پر نظارہ بھی کیا۔

کرتیکا شرما

July 2022

زمین کا خلا سے نظارہ

ناسا کے خلانورد راجا چاری عالمی خلائی اسٹیشن کے ’یو ایس کویسٹ ایئر لاک‘ میں خلائی دستانے پہن کر آلات کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ ناسا۔

مئی ۲۰۲۲ء  کے اوائل میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے ایک ہند ۔ امریکی خلانورد  راجہ چاری عالمی خلائی اسٹیشن پر ۶ ماہ گزارنے کے بعد عملے کے تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ زمین کی فضا میں دوبارہ داخل ہوئے۔وہ  امریکی فضائیہ میں کرنل کے عہدے پر فائز رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک نئے بھرتی شدہ کمانڈر  کی حیثیت سے  خلا کا سفر بھی کیا ہے ۔ در حقیقت وہ خلا میں جانے والے ۵۹۹ ویں انسان ہیں ۔ یہ خلا میں ان کی پہلی پرواز تھی۔

اسپَین کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں چاری سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات  جس میں انہوں نے خلا سے اپنی محبت اور زمین سے ہزاروں کلو میٹر اوپر اس ’’ قومی تجربہ گاہ ‘‘ پر سائنس کے استعمال کے بارے میں گفتگو کی ۔

ایک تربیت یافتہ جنگی ہواباز  اور ناسا کے پہلے نئے بھرتی شدہ کمانڈر کے طور پر خلائی پرواز کا آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

یہ ایک بہت حیرت انگیز سفر رہا ہے۔میں خوش قسمت رہا ہوں کہ مجھے اس  دوران بہت مدد ملی ، خواہ وہ گھر والوں سے ہو یا اپنے تربیت کاروں سے۔ تربیت کے حوالے سے بات کروں تو فضائیہ سے ناسا جانے تک کے سفر میں مماثلتیں تھیں۔

مہارتیں مختلف طرح کی ہوتی ہیں ۔ ان میں خلائی گاڑی کو کنٹرول کرنے سے لے کر کنٹرول ٹیم سے بات کرنے تک سب کچھ شامل ہے۔

لیکن بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو  بہت مختلف بھی ہیں۔  ناسا ایک زیادہ ہموار تنظیم ہے جس میں درجہ بندی کی زیادہ سطحیں نہیں ہوتیں۔  لیکن خلائی جہاز  میں کسی انفرادی شخص کے برعکس ساتھیوں کی ایک ٹیم اور عملے کے طور پر کام کرنا ضروری ہے۔خلائی پرواز میں  خلائی گردش اور روبوٹکس کے علاوہ تربیت کے دیگر عناصر بھی شامل  ہیں ۔

میرے  لیے یہ سفر واقعی پر لطف رہا ہے۔  جانسن خلائی مرکز  میں خدمات انجام دینا  اور خود سے بڑی چیز کے لیے پرعزم افراد  کے ساتھ کام کرنا ایک اہم سبب ہے جس کی وجہ سے میں جو کرتا ہوں اس سے لطف اندوز بھی ہوتا ہوں۔

اس مہم  نے یقینی طور پر مجھے مایوس نہیں کیا۔ یہ  میرے تصور سے کہیں زیادہ بہتر تھا ۔  مجھے اس طرح کے  خیالات کی توقع تھی  لیکن میں اس کی امید نہیں کر رہا  تھا کہ  روزانہ کی بنیاد پر سائنس سے متعلق مختلف چیزیں کرنے اور بہت سی مختلف ٹیموں میں شامل ہونے میں اتنا  مزہ آتا ہوگا۔

آپ نے خلاباز بننے کا فیصلہ کیوں کیا؟

میں نے بچپن میں بہت سارے لوگوں کو کہتے سنا تھا کہ وہ فائر بریگیڈ میں کام کرنا چاہتے ہیں یا ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔جہاں تک میرا معاملہ ہے تو جب میری عمر شاید ۵ برس تھی تو میری والدہ کے پاس خلانورد کی پوشاک میں میری تصویریں ہیں جو ’’ جب آپ بڑے ہوں گے تو کیا بننا چاہیں گے ‘‘ والے مخصوص دن لی گئی تھیں۔ لہٰذا، میں کہہ سکتا ہوں کہ یقینی طور پر ایسا کرنے کی خواہش میرے اندر ابتدا ہی سے تھی۔

جب میں ذرا  بڑا ہوا، میں نے ماضی کی طرف لوٹ کر اس پرغور وفکر کرنا شروع کیا کہ  حقیقت  کیا ہے۔  ہائی اسکول یا ابتدائی کالج میں شاید میں آپ سے یہ نہیں کہتا  کہ میں خلاباز بننا چاہتا ہوں کیوں کہ میں فضائیہ میں پائلٹ بننے پر زیادہ توجہ مرکوز کررہا تھا۔ لیکن صرف چیزوں کو دریافت کرنے کا  خیال یعنی  انسانی علم میں اضافہ کرنے یا نئی چیزوں کو دریافت کرنے کی کوشش کا خیال میرے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ جیسے جیسے میری عمر بڑھتی گئی  طبیعیات، خلا اور کائنات کو سمجھنے میں بھی میری دلچسپی میں اضافہ ہوتا رہا۔

میرے خیال میں،  کائنات کس طرح کام کرتی ہے، اس کی دریافت  اور اسے سمجھنے کی کوشش  کا امتزاج خلاباز بننے  کے لیے عمل انگیز ثابت ہوا۔  یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو پایا جب تک مجھے ٹیسٹ پائلٹ اسکول میں اس کاعلم نہیں ہوا کہ  ناسا میں درخواست دینے کا امکان  موجود ہے۔ اس وقت کسی ذاتی مقصد سے اس کا تعلق اتنا زیادہ نہیں تھا بلکہ اس کا زیادہ تعلق میری مہارتوں کے بہترین استعمال سے تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایک  خلاباز ہونا خدمت کا ایک بہترین طریقہ تھا۔

اکثر اوقات ہم وہ افراد نہیں ہوتے ہیں جو  تجربات، خیالات یا نظریات پر غور کرتے ہیں بلکہ  ہم وہ لوگ ہیں جو خلا میں جاتے ہیں اور وہاں لوگوں کے فائدے کے لیے اس کی تحقیق کرتے  ہیں۔ انسانیت کے لیے جو کیا جا سکتا ہے، بس اسے انجام دینے کے لیے  میں خلاباز بنےرہنا چاہتا ہوں ۔اور یہی وجہ ہے کہ خلاباز  کے طور پر میں نے عملی زندگی شروع کی۔

عالمی خلائی  اسٹیشن کی  خلائی پرواز کا مقصد کیا تھا؟

ہم لوگ نومبر۲۰۲۱ء میں  وہاں گئے اور تقریبا چھ ماہ بعد واپس آئے۔ ہم خلائی مہم ۶۶ اور ۶۷ کا حصہ تھے۔ اصل میں ہر ۴ سے ۶ ماہ بعد ایک نئی مہم شروع کی جاتی ہے جو بنیادی طور پر عالمی خلائی اسٹیشن کی کاروائیوں کو انجام دینے والے  خلابازوں کے گروپ کی عالمی خلائی اسٹیشن سے متعلق کاروائیوں کا حصہ ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم نے قریب ۳۰۰ سے زیادہ مختلف تجربات کیے۔

یہ اسٹیشن ۲۰ سال سے وہاں موجود ہے۔ ہمارے کام کا ایک حصہ اسٹیشن کی دیکھ بھال ہے خواہ  وہ ماحولیاتی کنٹرول ہو یا  گندا پانی، خوراک، پانی جیسے بنیادی نظام  ہوں یا  اسٹیشن کے باہر چیزوں کو ٹھیک کرنے یا نئے آلات نصب کرنے کے لیے اسپیس واک ہو۔ ان ۶ مہینوں میں  زمین سے خلائی اسٹیشن کو گاڑیاں آتی بھی رہیں  اور زمین پر واپس جاتی بھی رہیں جن میں خلائی اسٹیشن اور عملے کے ضرورت کا سامان لایا جاتا رہا۔

ہمارے عملے نے چار مرتبہ خلائی گردش کا تجربہ کیا۔ پہلی ’اسپیس واک‘ تو اسٹیشن پر پہنچنے کے ساتھ ہی ہوئی۔ کائلا بیرن اور ٹام مارشبرن نے اسے ایک خراب انٹینا کو ٹھیک کرنے کے لیے انجام دیا۔

بعد ازاں، کائلہ اور میں نے خلائی گردش کی ۔ اس کا مقصد ایک نیا ڈھانچہ نصب کرنا تھا تاکہ اسٹیشن کو نئے شمسی پینل نصب کرنے کی صلاحیت میسر آ جائے۔  اب جو شمسی پینل نصب ہیں وہ اصلی ہیں۔ یہ پینل گرچہ چھوٹے ہیں مگر یہ زیادہ توانائی یکجا کرنے کا کام کرتے ہیں تاکہ خلائی اسٹیشن کو ۲۰۳۰ء اور اس کے بعد بھی درکار بجلی فراہمی میں کوئی رخنہ نہ پڑے۔

تیسری ’اسپیس واک‘ میں میں نے متھایس مورر کے ساتھ مل کر جمپر نصب کیے جو بنیادی طور پر ایک ایسا کام ہے جو کوئی پلمبر انجام دیتا ہے۔اور ہمارے مشن کے اختتامی ایّام میں ’ ایکسیوم  مشن‘ (نجی طور پر اور ذاتی خرچے پر عالمی خلائی اسٹیشن کا سفر)نے خلائی اسٹیشن پر ۱۵ دن گزارے۔ یہ پہلی تجارتی پرواز تھی۔ تجارتی گاڑیوں کا خلائی اسٹیشن پر آنا ناسا کے لیے خلائی پرواز کے ایک نئے دَور کا آغاز ہے کیوں  کہ ہم زمین کے نچلے مدار کی نجکاری اور ناسا کو چاند اورمریخ کی تحقیق پر توجہ مرکوز کرنے کی سہولت فراہم کر نے پر غور کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ زمین کے نچلے مدار کی بہت سی کاروائیاں نجی صنعت کو منتقل کر دی جائیں گی۔

NASA astronaut Raja Chari (right) with his crewmate Kalya Barron working in a lab on the ISS

ناسا خلانورد راجہ چاری(دائیں) خلائی اسٹیشن کی اپنی ساتھی کائلہ بیرن کے ساتھ عالمی خلائی اسٹیشن کی تجربہ گاہ میں کام کرتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ ناسا۔

پہلے اسپیس واک  کا آپ کا تجربہ کیسا تھا؟

یہ بہت حد تک ’نیوٹرل بوائنسی لیب‘ (این بی ایل) جیسا تھا جہاں ہم  خلائی تربیت لیا کرتے تھے۔بہت سے لوگوں نے ہمیں پہلی اسپیس واک سے پہلے مشورہ دیاتھا  کہ ہمارے سامنے جو کچھ ہے اس پر نظر رکھنے کی کوشش کریں۔ کچھ لوگوں کو ایسا لگ سکتا ہے کہ وہ گر رہے ہیں جبکہ ایسا ہوتا نہیں ہے یعنی وہ گرتے نہیں ہیں ۔ اس کا انہیں ایک بصری احساس ہوسکتا ہے جو انہیں مغلوب کر دیتا ہے۔

اگرچہ میرے ساتھ اس طرح کے احساس کا مسئلہ نہیں تھا تاہم  اس امکان سےاجتناب  کے لیے میں اپنے سامنے ہینڈریل کو دیکھنے پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہا تھا۔ کائلہ اور میں نے این بی ایل میں خلاباز امیدوار کی تربیت میں ایک ساتھ بہت تربیت حاصل کی تھی اور اس لیے ہم نے انہیں  بالکل این بی ایل کی طرح محسوس کیا  کیونکہ میں انہیں  خلائی اسٹیشن ،  اس کی روشنیوں، اس کے اوزاروں اور دیگر تشکیلات کی جانچ کرتے ہوئےدیکھ رہا تھا۔

میں نے اپنی پہلی اسپیس واک پر بہت توجہ مرکوز رکھنے کی کوشش  تو کی تھی مگر ایک غلطی ہوگئی ۔ میرے لیے یہ فضائیہ میں پرواز کرنے سے بہت ملتا جلتا تھا جہاں آپ واقعی مشن پر توجہ مرکوز کر تے ہیں اور آپ کے لیے سب کچھ لکھاہوتا  ہے۔ ابھی ۴۵ منٹ  بھی نہیں ہوئے تھے کہ میں رکا  اورذرا اطراف کا جائزہ لینے کے علاوہ ’ ٹرس اسٹرکچر‘  سے زمین کی طرف دیکھا۔ مگر اصل میں مجھے رکنا تھا اور تمام چیزوں کو اندر کی جانب کھینچنا تھا۔

عالمی خلائی اسٹیشن کے   آپ کے ابتدائی دن کیسے تھے؟

سب سے اچھی تشبیہ جو میں نے سنی ہے وہ یہ ہے کہ آپ ایک بچے کی مانند ہیں۔ آپ خود کھانا نہیں کھا  سکتے، آپ خود باتھ روم نہیں جا سکتے، آپ واقعی کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ بس سونا چاہتے ہیں۔ جب آپ پہلی بار وہاں پہنچتے ہیں تو آپ کھانا بھی نہیں چاہتے کیونکہ آپ کو زیادہ بھوک نہیں لگتی ۔ پہلے ۴۸گھنٹے ہم لوگ صرف اس احساس کی عادت ڈال رہے تھے جیسے ہر وقت گر رہے ہوں۔ میں نے دماغی دھند کا بھی تجربہ کیا جہاں آپ کو کاموں کو کرنے کے بارے میں واقعی سختی سے غورکرنا پڑتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین پر آپ بہت سارے کام ایک ساتھ کر  سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں فون پر بات کر سکتا ہوں اور میں اپنا مشروب میز پر رکھ سکتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ کہیں گرنے والا نہیں ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ خلا میں ساری چیزیں تیرتی ہیں لہٰذا وہاں کئی کام ایک ساتھ کرنا  بہت مشکل ہے۔ تقریباً دو سے تین ہفتوں میں میرادماغ نئی صورت حال کا عادی ہو گیا۔

بہت کمزور کشش ثقل  میں گزارے گئے چھ ماہ کی مدت میں آپ نے کیا سیکھا؟

میرے خیال میں غیر متوقع چیزوں میں سے ایک، اتنے عظیم عملے کے ساتھ کام کرنے کی خوشی تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ ایک عظیم عملے کے ساتھ ہونے سے  کتنا فرق پڑ سکتا ہے۔ ان تجربات کا حصہ بننا بھی واقعی بہت اچھا تھا جن کے بارے میں زمینی ٹیم کے سائنسدانوں یا انجینئروں نے سوچا اور خلائی اسٹیشن پر جانے اور ان کے لیے اعداد وشمار حاصل کرنے کی خاطر برسوں تک کام کیا۔

میرے خیال میں دوسری بڑی چیز سیکھنے کی یہ تھی کہ ہمارا  ماحول کتنا نازک ہے۔ زمین پر ہوا کی پرت اس کے ارد گرد کی جگہ کے مقابلے میں بہت معمولی ہے، یہاں تک کہ اس کے نیچے کی زمین کے  مقابلے میں بھی ۔  اس نے مجھے واقعی متاثر کیا۔ وہ سب کچھ جس کے بارے میں معلوم ہے یا میں سمجھتا ہوں یا شعوری طور پر یاد ہے،  وہ سب  ہوا کی اس چھوٹی سی پرت میں ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ کتنا اہم ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ، اورانسانیت  اپنے سیارے کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی نہ کسی طرح اس کا اندازہ لگاتے ہیں کیونکہ یہی وہ تمام اسباب ہیں جو ہمارے پاس ہیں۔

 بہت کمزور کشش ثقل  میں اتنا وقت گزارنے کے بعدوہ کون سی  سب سے مشکل عادت تھی جو چھوڑنی تھی ؟

میرے خیال میں وہ عادت جسے میری  جلد چھوڑنے کی خواہش تھی، وہ بہاؤ کی جگہوں پر ہونا تھا۔ مجھے اٹھنا اور کہیں چلنا حیرت انگیز طور پرمشکل لگتا تھا۔  (خلا میں) اگر آپ  کی  کوئی میٹنگ ہے تو آپ آخری سیکنڈ تک انتظار کر سکتے ہیں کیونکہ آپ صرف ماڈیول کونیچے کرکے اور اس کے ارد گرد جھولتے ہوئے  تیزی سےجائے ملاقات پر پہنچ سکتے ہیں۔

زیادہ لاشعوری اور جسمانی چیز جس کو واپس آکر مجھے  بہت جلد اپنانے کی ضرورت تھی  وہ چیزوں کو پکڑنا تھا۔ پہلی بار جب ہم لینڈنگ سائٹ سے جانسن خلائی مرکز  تک  جانے کے لیے ہوائی جہاز پر تھے مجھے

جامن کا ایک ڈبہ  دیا گیا۔ اس میں  باہرکی جانب کچھ نمی اور کثافت تھی ۔  میرے ہاتھ سے فوری طور پروہ گر گیا کیونکہ میری انگلیاں اور دماغ یہ اندازہ نہیں لگا پارہے تھے کہ اس میں نمی ہے لہٰذا اس میں پھسلن ہوگی۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ مجھے اسےدھیان سے پکڑنے کی ضرورت ہے لیکن میں اپنی انگلیوں کو اتنی چابکدستی سے اس کام کے لیے تیار نہیں کر پایا  اور آخرکار یہ میرے ہاتھوں سے گر گیا۔

ایک ہند۔ امریکی کی حیثیت سے  بڑے ہونے کا تجربہ کیسا تھا ؟ کیا کوئی ایسی روایت ہے جس پر آپ آج بھی قائم ہیں؟

میرے والد بھارت  سے ہجرت کر کے آئے تھے۔  انہوں نے میری ماں کے ساتھ مل کر ہمیں مقامی ہند۔ امریکی برادری  کے ساتھ مربوط رکھنے کی بہت کوشش کی تھی۔

ہم شمال مشرقی  ریاست آئیووا میں پلے بڑھے ہیں۔ ہم (مقامی بھارتی برادری) سے ان عوامی ہالوں میں ملتے جو تمام بڑی بھارتی چھٹیوں پر کرائے پرلیے جاتے تھے ۔ ان دنوں کی یادیں میرے ذہن میں بالکل واضح ہیں ۔  ایسے مواقع احسا س کراتے تھے جیسے میرا دوسرا سماجی خاندان بھی موجود ہے۔ اگر میرے والد نے ایسا نہ کیا ہوتا تو اسکول میں میرے رابطے میں آنے والےہند۔ امریکیوں کی ایک بڑی تعدادآج موجود  نہ ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہم میں سے صرف مٹھی بھر تھے۔

ہم لوگ اب بھی روایات کا لحاظ کرتے ہیں۔ میرے دو درمیانی نام ہیں۔ ایک امریکی اور ایک بھارتی ۔  یہ ایک روایت ہے جو ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ بھی برقرار رکھا ہے۔ بدقسمتی سے میرے والد کا انتقال ہو گیا لیکن ہم اب بھی اپنے بچوں کے ساتھ ان کی باتیں کرتے ہیں ۔ہم انہیں اپنے خاندان کی جڑوں  کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ۔ اور انہیں اس سے جوڑے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میں ہنوز اپنے کزن اوران کے بچوں کی دیکھ ریکھ کرتا  ہوں۔ لہٰذا ہم اس سلسلے میں ایک خاندان کے طور پر جڑے رہتے ہیں۔ ہم نے ملک کے مختلف حصوں میں خاندانی میل جول کے ساتھ اکٹھا  ہونے کی روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ میرے والد میرے زیادہ تر کزن کےکفیل  تھے جو اب امریکہ اور دنیا بھر میں مختلف مقامات پر  بود و باش اختیار کیے ہوئے ہیں۔  میرے خیال میں یہ بھی ایک منفردہند ۔ امریکی خصوصیت ہے، دونوں ملکوں میں ایک ساتھ رہنا  یعنی  امریکہ میں رہنا بھی اور بھارت میں اپنے خاندان سے جڑا ہوا محسوس کرنا بھی۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے