آئی وی ایل پی فیض یافتہ سیّد مبین زہرا اس مضمون میں اپنی تدریسی مشغولیات اور معاشرتی فعالیت کے متعلق اظہار خیال کرتی ہیں۔
November 2023
آئی وی ایل پی سے فیض یافتہ ڈاکٹر سیّد مبین زہرا نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں منعقد ’امن کی رنگولی‘ نمائش کے موقع پر۔(تصویر بشکریہ یوگیش کمار)
سیّد مبین زہرا دہلی یونیورسٹی کے آتما رام سناتن دھرم کالج میں تاریخ کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ ایک مصنفہ ، کالم نگار، کارکن، تجزیہ نگار اورمقرر ہ بھی ہیں۔
۲۰۱۷ء میں زہرا نے امریکی وزارت خارجہ کے بین الاقوامی وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) میں شرکت کی جس کا عنوان تھا ’’انسدادِ آن لائن پُرتشددانتہاپسندی۔‘‘ ۲۰۱۹ءمیں انہوں نے آئی وی ایل پی کے ایک اور پروگرام ’’قائدین کو قیادت کرنے دیں ‘‘ میں بھی شرکت کی ۔زہرا کو ان کی اردو اور ہندی میڈیا میں صحافتی خدمات کے لیے اب تک دو لاڈلی میڈیا انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ واضح رہے کہ محترمہ مبین زہرہ اردو روزنامہ انقلاب کے لیے ہفت واری کالم ’’سرگوشیاں‘‘اور ہندی روزنامہ ’’جن ستّا ‘‘کے لیے پندرہ روزہ کالم ’’سمانتر سنسار‘‘تحریر کرتی ہیں۔ ان کے مضامین کا مطمح نظر معاشرتی اور صنفی مسائل ہوتا ہے۔
ستمبر میں عالمی یومِ امن کے موقع پر زہرا نے نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر میں آرٹ نمائش کے موقع پر اسپَین سے گفتگو کی۔ پیش خدمت ہیں چند اقتباسات۔
بحیثیت ایک معلّمہ اور تجزیہ نگارآپ خود کو کس طرح دیکھتی ہیں ؟
میں سمجھتی ہوں کہ بحیثیت ایک معلّمہ میرے اوپر یہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میں نوجوانوں میں نہ صرف ان کے مضمون کی تعلیم دوں بلکہ ان کی تربیت بھی کروں تاکہ وہ ایک اچھے انسان اور عالمی شہری بن سکیں۔
میں ہر ممکن پلیٹ فارم پر صنفی مساوات پر لکھتی بھی ہوں، اس کی وکالت بھی کرتی ہوں اور اس کے فروغ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں میں پُر تشدد انتہا پسندی کے خلاف آواز بھی بلند کرتی رہتی ہوں۔ میں نے اس موضوع پر اپنے کالموں میں بہت کچھ لکھا بھی ہے ۔نیز قومی اور بین الااقوامی سیمیناروں میں مقالات بھی پیش کیے ہیں۔
عہد وسطیٰ کی تاریخ ِہند اور میڈیا آپ کا تخصص ہیں۔آپ کی نظر میں عہد وسطیٰ کے محققین کے لیے اردو زبان کا علم کس طور پر کار گر ثابت ہوسکتاہے؟
گوکہ میں کانوینٹ اسکول سے تعلیم یافتہ ہوں مگر مجھے گھر پر اردو ، عربی، فارسی اور بنیادی دینیات پڑھانے کے لیے معلّم آیا کرتے تھے۔ان زبانوں کے سیکھنے سے مجھے ان زبانوں کی ثقافت سے بھی واقفیت ہوئی۔
نئی دہلی میں واقع جواہرلعل نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی تحقیق میں اردو اور فارسی زبانوں سے واقفیت میرے لیے کافی مددگار ثابت ہوئی۔ اس سے مجھے اپنی تحقیق میں بڑی مدد ملی۔
یہ معاملہ صرف اردو کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کوئی بھی زبان سیکھیں اس سے آپ کو اس کی تاریخ ، ثقافت اور روح سے واقفیت ہوتی ہے۔آپ کو اگر زبان آتی ہے تو آپ مضمون کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں۔ میں مراٹھی بھی لکھ، پڑھ اور بول لیتی ہوں۔مراٹھی سے مجھے اپنے تحقیقی کام اور ترسیل دونوں میں ہی بہت مدد ملتی ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ آپ کو جتنی زیادہ زبانیں آتی ہیں اتنا ہی آپ کا ذہن تحقیق کے لیے وسیع ہوتا ہے۔
اپنے ۲۰۱۷ ءاور ۲۰۱۹ءکے بین الاقوامی وزیٹر لیڈرشپ پروگرام کے تجربات کے متعلق کچھ بتائیں۔
میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے دو بار آئی وی پی ایل میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔
۲۰۱۹ء میں تو میں نے بہت سارے دیرینہ دوست بنائے۔۲۱ ممالک سے آئے تمام شرکاء ایک ہی زبان بول رہے تھے، انسانیت اور امن کی زبان۔
میں نے ۲۰۱۷ء میں واشنگٹن ڈی سی، فینکس، ٹیمپااور نیو یارک سٹی کا سفر کیا۔ان اسفار سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ امریکہ مختلف النوع ثقافتوں اور مذاہب کو اپنے اندر سمونے کے اصول پر کس قدر شدت سے کار بند ہے۔ آئی وی ایل پی کے دونوں تجربات کی بدولت میرے دماغ کے دریچے کھلے، علم میں اضافہ ہوا، میں ایک بہتر انسان بن سکی نیز میرے تدریسی کرئیر میں بھی کافی ترقی ہوئی۔
سیّد مبین زہرا آئی وی ایل پی کے تحت امریکہ کے اپنے دورے کے دوران ریاست الاباما میں واقع برمنگھم سول رائٹس انسٹی ٹیوٹ بھی گئیں۔(تصویر بشکریہ سیّد مبین زہرا)
آپ نے ان تبادلہ پروگراموں سے کیا سیکھا ۔ یہ بھی بتائیں کہ یہ چیز بھارت میں آپ کےتحقیقی کام کے لیے کیسے مفید ہے؟
سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ میرا مطمح نظر وسیع ہوا اور جمہوری اقدار(جس کے علم بردار امریکہ اور بھارت دونوں ممالک ہیں )میں میرا یقین مزیدمضبوط ہوا۔ معاشرت، افراد، ثقافت، مذاہب اور جمہوری اقدار کے متعلق بعض اشکالات تھے جن کا تدارک تبادلہ پروگرام کے دوران بخوبی ہوا۔ میں نے اپنے تجربات کا اشتراک اپنے طلبہ کے ساتھ کیا اور ان کو ترغیب دلائی کہ وہ بھی ان مسائل پر کام کریں جو ان کہ نظر میں اہم ہیں۔
مختصراً میں یہ دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ آئی وی ایل پی کی بدولت میں ایک زیادہ باشعور، پر اعتماد، اور ہوش مند انسان بن کر ابھری ۔
امیریکن سینٹر میں عالمی یومِ امن کے پس منظر میں ایک آرٹ نمائش کا انعقاد پر کچھ روشنی ڈالیں۔ نیز ،یہ بھی واضح کریں کہ آرٹ اور ثقافت امریکہ اور بھارت کے عوام کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں کس طرح کام آسکتے ہیں؟
’’امن کی رنگولی‘‘ نامی اس آرٹ نمائش میں فنکاروں نے اپنے تخیلات کو بخوبی پیش کیا۔ مصوری کو ہمیشہ سے ہی زمان و مکاں کا آئینہ تصور کیا گیا ہے۔لہذا اس آرٹ نمائش میں بھی معاصر فنکاروں نے اپنے اپنے طور پر ’’امن‘‘کا اظہار کیا ہے۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے دانشورانہ تبادلوں کی ضرورت ہے جن میں بھارت اور امریکہ میں مشترکہ جمہوری اقدار کو آرٹ اور مصوری کے ذریعہ سے فروغ دیا جائے۔
تنازعاتی حل یا صنفی مسائل کے میدانوں میں کام کرنے والے نوجوانوں کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
اولاً تو زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس میدان میں آگے آنا چاہیے ۔ میں نئی نسل کے بارے میں کافی پُر امید ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے مجھے لگتا ہے کہ نئی نسل ان مسائل کے تئیں زیادہ سنجیدہ، بیدار اور حسّاس ہے۔ نہ صرف یہ اہم ہے کہ ہم نوجوانوں کو ان مسائل سے روشناس کرائیں اور ان کی مشاورت کریں بلکہ ان کو قانونی، معاشرتی، اور عملی روڈ میپ بھی تیار کرکے دیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا سکیں۔ میں زور دے کر کہوں گی کہ نوجوانوں کو اسفار، کام، اورتبادلہ خیال کے زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں تاکہ وہ بہتر تبدیلی کا محرک بن سکیں۔
تبصرہ