ادبی تعلق

اس مضمون میں فل برائٹ۔ نہرو فیلو اَیلن جَونسن ہند سے اپنے تعلق، یہاں کے ادب کی دلکشی اور فل برائٹ پروگرام جیسے تبادلہ پرو گراموں کی اہمیت پر بات کرتے ہیں۔

دیپانجلی ککاتی

May 2020

ادبی تعلق

فُلبرائٹ ۔ نہرو فیلو اَیلن جَونسن (دائیں) اورنگ آباد میں واقع ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے پروفیسر اے جی خان کے ساتھ۔ تصویر بشکریہ اَیلن جَونسن

اس مضمون میں فل برائٹ۔ نہرو فیلو اَیلن جَونسن ہند سے اپنے تعلق، یہاں کے ادب کی دلکشی اور فل برائٹ پروگرام جیسے تبادلہ پرو گراموں کی اہمیت پر بات کرتے ہیں۔

آئیڈاہو یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر اَیلن جَونسن کو دو مرتبہ فل برائٹ اسکالر شپ پر انڈیا آنے کا موقع ملا۔ وہ اب یونیورسٹی کے فل برائٹ پروگرام کے مشیر ہیں۔ان کی ۲۰۱۱ء میں منظر عام پر آئی کتاب ’آؤٹ آف باؤنڈس‘ انڈیا کے فطری اور تعمیر شدہ ماحول کے بیان سے متعلق ہے۔انہوں نے یہاں اپنے ایک رفیق کے ساتھ مل کر ہند میں ما بعد نو آبادیاتی ادب پر ایک کتاب بھی ترتیب دی ہے اور ہندی فلموں سے لے کر مہاشویتا دیوی اور ہانسدا سوویندر شیکھر کے افسانوی ادب تک مختلف موضوعات پر مضامین بھی لکھے ہیں۔

جَونسن نے حال ہی میں ایک پُر اسرار ناول ’فیملی پلاٹ‘ شائع کیا جس کا پس منظر تمل ناڈو کا پلانی ہلس علاقہ ہے۔وہ بتاتے ہیں ”گرچہ میں نے اس ناول کا مسودہ ۲۰۱۶ ء میں فل برائٹ فیلو شپ شروع ہونے سے پہلے مکمل کر لیا تھا مگر پلانی ہلس اور اس کے شولا جنگلات اس طرح بار بار نمودار ہوئے جس طرح وہ ذیلی ثقافت سامنے آتی ہے جو تمام پہاڑی تفریح گاہوں کے مزاج کا خاصہ ہوتی ہے۔بعد ازاں اپنے فل برائٹ دورہ پر میں نے یہ دریافت کیا کہ اس ناول کے لکھنے کے عمل میں میری عالمانہ قلم رانی لطیف انداز میں بہتر ہوئی، جیسے کہ میں نے مقامی انجیر کے درختوں کو نئی قدر دانی کے ساتھ دیکھا۔“

پیش ہیں ان سے انٹرویو کے اقتباسات۔

آپ کو مابعد نو آ بادیاتی ادب اور نظریہ میں مہارت حاصل ہے، خاص کر انڈیا کے حوالے سے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ہند آپ کی توجہ کا مرکز کیوں ہے؟

میری پیدائش انڈیا میں ہوئی اور میں یہیں پلا بڑھا۔اس لیے فطری طور پر میں یہاں کے ادب اور یہاں کی ثقافت کی جانب کھنچا چلا آیا۔مجھے پنے، احمد آباد اور کوڈائی کنال میں گزارا ہوا اپنے بچپن کا زمانہ یاد ہے جہاں میری اسکولی تعلیم ہوئی تھی۔ اس وقت میں اسپَین میگزین دیکھا کرتا تھا۔ اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے میں نے برطانوی وکٹوریائی ادب کا مطالعہ شروع کیا۔بعد میں پروفیسر پرامارائے کے ساتھ کام کرتے ہوئے میں ما بعد نو آبایاتی ادب کی جانب آگیا۔بہت سی صورتوں میں (ہندوستانی ادب کا میرا مطالعہ) میں ادب کو جمع کے صیغے کے ساتھ استعمال کرتا ہوں کیوں کہ انڈیا میں زبانوں اور ادبی کاوشوں کی کثرت ہے تھوڑا سا خود غرضانہ ہے کیوں کہ یہ میرے لیے اپنے آپ کو سمجھنے کا ایک طریقہ ہے۔لیکن میں امریکہ میں بھی اپنے طلبہ کے ساتھ ان ادب پاروں کا اشتراک کرکے بہت مسرور ہوتا ہوں۔

آپ آئیڈا ہو اسٹیٹ یونیورسٹی میں مختلف النوع نصاب پڑھاتے ہیں جس میں ایک بالی و وڈکانصاب بھی ہے۔ایسے میں ہندسے تعلق رکھنے والے مطالعہ جات میں اپنی یونیورسیٹی کے طلبہ میں آپ کس قسم کی دلچسپی دیکھتے ہیں؟

گذشتہ دہائیوں میں،مغرب میں غیر امریکی اور غیر یوروپی مضامین پڑھانے والے ہم تمام لوگ، پوری دنیا خاص کر ہندکی تخلیقی کاوشوں می طلبہ کی بتدریج بڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھ کر خوش ہیں۔ اور یہ بڑی بات ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ان میں عالمگیریت اور انٹرنیٹ خاص ہیں۔ دیگر عوامل میں بالی و وڈ فلموں کی موسیقی سے شغف، اسفار میں اضافہ اور دنیا میں ہندکا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ بھی ہے۔اور ہندوستانی کھانے شمالی امریکہ میں،(حتیٰ کہ چھوٹے قصبات میں بھی، جیسے وہ قصبہ جہاں میں رہتا ہوں)، بہت ہر دل عزیز ہے۔شاید اس کا بھی کوئی تعلق، زندگی کے ہر شعبے میں ہند۔ امریکیوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے ہے۔

آپ براہ کرم ہمیں ۲۰۱۰ء میں انڈیا میں فل برائٹ۔ نہرو لکچرر کے طور پر اپنے تجربے کے بارے میں کچھ بتائیں۔

میں نے ۲۰۱۰ء کے اپنے پہلے فل برائٹ دورہ کو تحقیق کرنے اور لکچر دینے میں تقسیم کر دیاتھا۔ میرا مرکز یونیورسیٹی آف ممبئی تھا۔ میں نے اپنی توجہ عالم گیریت اور ادب پر مرکوز رکھی۔ تاہم چوں کہ ممبئی میں تعلیمی سال میرے یہاں کے تعلیمی سال سے جداگانہ تھا، اس لیے میں ممبئی میں اپنے یہاں کے موسم بہار کے ٹرم کے لیے تھا۔اس لیے میں گرچہ وہاں جنوری سے مئی کے دوران رہا مگر بہت کم کلاس لے سکا۔

سوئے قسمت ممبئی کے امیریکن سینٹر اور میرے اپنے روابط کی بدولت میں وڈودرا سے لے کر کانپور تک اور اس کے درمیان آنے والے علاقے یا یوں کہیں کہ پورے ملک کا بکثرت سفر کیا۔یہ تجربہ بہت شاندار تھا کیوں کہ اس کی وجہ سے مجھے یہ بات معلوم ہو سکی کہ ہندوستان کے مختلف شہروں اور خطوں میں عالم گیریت کی وجہ سے تبدیلی آرہی ہے۔بزنس انگلش کی کلاسوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ کال سینٹر بڑھ رہے ہیں اور انگریزی ادب کے شعبے اپنے نصاب میں زیادہ سے زیادہ ہندوستانیوں کی نئی ادبی کاوشوں کو شامل کر رہے ہیں۔

آپ کے ۱۷۔۲۰۱۶کے فل برائٹ نہرو ریسرچ ایوارڈ میں ہندوستانی ادب میں جنگلات کی پیشکش کے بین مضا مینی مطالعہ کا پہلوشامل تھا، کیا آ پ ہمیں اس ریسرچ ایوارڈکے جز کے طور پر اپنے کام کے بارے میں بتائیں گے؟

میں نے اس دوسرے فل برائٹ فیلو شپ کی مدت کے دوران بنیادی توجہ تحقیق پر رکھی۔اس وقت میری وابستگی آئی آئی ٹی مدراس سے تھی۔ میں نے ہند کے جدید ادب میں جنگلوں کی پیکر تراشی کے اپنے نئے موضوع پر کام شروع کیا۔میں نے تمل ناڈو کوٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ میں جنگلات سے پیار کرتے ہوئے بڑا ہوا تھا۔ اس معاملہ میں میں نے پلانی ہلس کے شولا کا انتخاب کیا۔اسکول کے دنوں میں وہاں رہا تھا۔پھر میں جنوبی ہند واپس جانا بھی چاہتا تھا تاکہ مجھے اس موضوع کی بہتر تفہیم ہو۔آئی آئی ٹی کا کیمپس میرے لیے خود ایک حیرت انگیز انکشاف تھا۔وہاں بے شمار خوبصورت درخت اور جنگاتی زندگی کے مظاہر میرے سامنے تھے۔میری خوش قسمتی تھی کہ میں فیلو شپ کے آخری دو ماہ کوڈائی کنال میں کام کر سکا جہاں میں نے پھر سے شولا جنگلات کا تجربہ کیا اور ماہرین ماحولیات سے ملاقات کر سکا۔مجھے یہ بتاتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے کہ میں نے ان تجربات کو کتابی شکل میں قلمبند کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے اور میرا ارادہ ۲۰۲۰ء کے آخر تک اس کتاب کی تکمیل کا ہے۔

دو فل برائٹ اسکالر شپ کے تجربات آئیڈاہو اسٹیٹ یونیورسٹی میں آپ کے کام پر کس طرح اثر انداز ہوئے؟

دونوں تجربات نے میری تدریس اور تحقیق کو باخبر بنایا۔میں متعدد مضامین لکھنے، کانفرنسوں میں مقالے پیش کرنے اور اپنی فل برائٹ تصویریں دکھا کر کمیونیٹی ٹاک دینے کا اہل ہو سکا۔اور سب سے اہم بات یہ کہ طلبہ کے ساتھ اپنے تجربات اور ادراک کا اشتراک کر سکا۔ہماری تیزی سے سمٹتی اور یکساں تیزی کے ساتھ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوتی دنیا میں فل برائٹ دورے ثقافتی اور تعلیمی تبادلوں کا اہم ذریعہ ہیں۔میں نے امریکہ میں اپنے کیمپس میں ہندوستانی فل برائٹ اسکالرس کو خطاب کے لیے مدعو کیا ہے اس سے ہمارے طبقات میں انڈیا اور بین الاقوامی تبادلوں کی قدر دونوں میں اضافہ ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے عطیات کی اہمیت اب پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔

آپ کی نظر میں فل برائٹ جیسے تبادلہ پروگراموں کے اصل فائدے کیا ہیں؟

فل برائٹ جیسے پروگرام وظیفہ یافتگان کے لیے ثقافتی، دانشورانہ اور ذاتی طور پر نئی دنیا کے در وا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ انہیں اس بات کا موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے میزبان کے ساتھ اپنے تجربات اور ثقافتی نقطہئ نظر کا اشتراک کریں اور میزبان بھی اس کا لطف اٹھاتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر اس تجربہ کے طاقتور اثرات اپنے واقف کار وں پر مرتب ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔انہیں میں نے ہمیشہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے میزبان ملک جانے اور پوری دنیا گھومنے کا منصوبہ بناتے ہوئے دیکھا ہے۔

بھارت کا آپ کا پسندیدہ مصنف کون ہے اور کیوں؟

یہ بتانا نا ممکن ہے۔ میرے بہت سے پسندیدہ مصنف ہیں مگر اختصار سے کام لیتے ہوئے میں کہوں گا۔ امیتابھ گھوش،آر کے نارائن،راجہ راؤ، مہا شویتا دیوی،یو آر اننت،سلمان رشدی، پریم چندر، رابندر ناتھ ٹیگور،عطیہ حسین،ارون دھتی رائے، اُپا منیو چٹرجی،ارون کولاتکر، ایسٹرائن کائر، آغا شاہد علی اور رسکِن بونڈ۔یہ مختصر فہرست ہے جوہند کی جدید قلم رانی کی رنگارنگی اور گہرائی کی عکاسی کرتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ کچھ ادب پاروں کی بھی عکاسی کرتی ہے جنہیں میں نے خاص طور پر اپنی تدریس اورتحقیق میں گراں قد ر پایا ہے۔ان میں کچھ شہہ پارے بلا شبہ ترجمے ہیں۔ان ادب پاروں کو اصل صورت میں پڑھنا ایک مثالی چیز ہوتا مگر ہند کی لسانی کثرت کا تقاضا ہے کہ ان ادبی خزائن سے لطف اندوز ہونے اور انہیں پڑھانے کے لیے ترجموں پر اکتفا کیا جائے۔ان میں کچھ قلمکاروں کو نصیب سے اچھے مترجم بھی ملے ہیں۔ بے شک ان میں سے سب ذو لسانی اور کچھ سہ لسانی ہیں۔ یہ اس ملک کی قلم رانی کی ایک ایسی خصوصیت کی مثال ہیں جنہیں میں پسند کرتا ہوں۔یعنی یہ کہ اس کی جڑیں ایک خواہ ایک خاص خطے میں ہوں مگر اس میں دیگر خطوں اور زبانوں کی بھی گونج ہے۔کچھ ادبی کام پُر جوش ہیں جن میں کوڈ سوئچنگ (دو زبانوں کی مدد سے تخلیق کار یا مصنف کا اپنا موقف بیان کرنا)اور ذو معنی لفظ کے مزاحیہ استعمال کی زندہ دلی کی کارفرمائی بھی ہے۔ کو لاتکر نے اپنے مشہور شعری مجموعہ’جیجوری‘ کو دو زبانوں انگریزی اور مراٹھی میں شائع کرایا۔ ایسا کرکے انہوں نے پایا کہ وہ ایک دوسرے پر کسی کا انتخاب کیے بغیر ہر زبان کی بعض مخصوص لطیف باریکیوں کے اظہار پر قادر ہیں۔یہ لسانی خصوصیت اس وسیع تر حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ قلمکاروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی تحریروں کی مقامیت کا قابل یقین کرداروں اور کہانیوں میں ترجمہ کریں، ٹھیک اسی طرح جس طرح ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ربط ضبط میں اپنے خیالات اور تجربات کا ترجمہ کرتے ہیں اور ٹھیک ویسے ہی جیسے فل برائٹ فیلوشپ کا تجربہ ہمارے ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے