پُلِٹزر ایوارڈ یافتہ مصنف وجے شیشادری کہتے ہیں’’ کوئی مصنف لکھنے کے بارے میں خواب نہیں دیکھتا ، وہ تو بس لکھتا چلا جاتا ہے۔‘‘
September 2022
وجےشیشادری نیویارک کے سارہ لارینس کالج میں پڑھاتے ہوئے۔ تصویر بِل مائلس۔
ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی عام انسان وجے شیشادری جیسے ماہر ادیب سے یہ امید کرسکتا ہے کہ وہ چٹکی بجائیں اور الفاظ قطار اندر قطار ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑے ہو جائیں ،گویا جیسے کہ ادب کی تخلیق کوئی ایسا مشکل کام نہیں۔ مگر حقیقت کے بارے میں خود شیشادری کہتے ہیں کہ کسی نظم ، مضمون یا کسی کتاب کا مسوّدہ لکھنا کوئی روحانی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک محنت طلب کام ہے۔
شیشادری کہتے ہیں ’’جب بات لکھنے کی آتی ہے تو مجھے متن کی دیوار سے لگاتارسر ٹکرانے کے علاوہ ایسی کسی چیز کا ادراک نہیں ہوتاجس کی مدد سے میں کوئی چیز خلق کرسکوں۔ایک کامیاب مصنف بننے کے لیے آپ کو کسی نظم، مضمون یا افسانے کے مشکل مسئلے کے ساتھ تب تک بیٹھنے کی سکت اور قوت برداشت پیدا کرنی ہوتی ہے جب تک کہ آپ کو کوئی چیز حاصل نہ ہو جائے۔ اور یہ وہ چیز ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ہی آتی ہے۔‘‘
اور ایسا نقطہ نظر سخت تجربے کی بنیاد پر ہی پیدا ہو سکتا ہے۔ ۱۹۵۴ء میں بنگالورو میں پیدا ہونے والے شیشادری نے بعد میں امریکی ریاست اوہائیو کی راجدھانی کولمبس کا رخ کیا۔انہوں نے ۱۴ برس کی عمر ہی میں آرزو کی تھی کہ وہ ادیب بن جائیں۔وہ بتاتے ہیں ’’میں ایک مصنف بننا چاہتا تھاکیوں کہ میں پڑھتاتھا اور بس پڑھتا ہی رہتا تھا۔ ان دنوں میری طرح کے تمام بچے ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
اس زمانے میں ہمارے لیے آج کی طرح کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تو تھا نہیں جس پر ہم لوگ اعتماد اور انحصار کرسکیں۔شیشادری نے عصری شاعری میں اسی وقت دلچسپی لینی شروع کی جب وہ کالج میں داخلہ لے رہے تھے۔اور پھر پہلے ہی سمسٹر میں انہوں نے اپنی پہلی نظم لکھ ڈالی۔
۱۹۸۲ ء میں وہ نیویارک سٹی(این وائی سی) چلے گئے جہاں انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے ماسٹر آف فائن آرٹس کی ڈگری لی۔اسی دوران قومی سطح پر مشہور و معروف رسائل میں ان کی بہت ساری نظمیں شائع ہوئیں۔ کولمبیا یونیورسٹی میں انہوں نے مڈل ایسٹرن لینگویجیز اینڈ لٹریچر میں پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لیا ۔ اسی پروگرام کے تحت انہوں نے فارسی اور اردو زبانوں کا مطالعہ کیا ۔جنوبی ایشیا سے متعلق ایک تعلیمی دورے نے انہیں پاکستان کے شہر لاہور جانے کا موقع دیا ۔ اس دورے نے انہیں اس فیصلے کی تحریک میں مدد کی کہ تبدیلی کی ضرورت ہے۔وہ کہتے ہیں ’’میں جنوبی ایشیا کی سیاست، خاص طور سے تقسیم کی تاریخ میں دلچسپی رکھتا تھا لیکن اس دورے کے دوران میں نے فیصلہ کیا کہ حقیقی طور پر میں معلمی کو پیشے کے طور پر اختیار کرنا نہیں چاہتا۔ ‘‘
دورے سے واپس آنے کے بعد شیشادری کو ایک مشکل مرحلے سے گزرنا پڑا ۔ ان کے پاس نہ تو کوئی ملازمت تھی اور نہ ہی اگلے مرحلے کی کوئی منصوبہ بندی ۔ خوش قسمتی سے انہیں ادبی اور ثقافتی رسالہ دی نیو یارکر میں ملازمت کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ اس رسالے میں کئی برسوں تک ان کی کئی نظمیں شائع ہو چکی تھیں۔انہوں نے وہاں ۱۹۹۳ ء سے سنہ ۲۰۰۰ء تک ایک کاپی ایڈیٹر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔ اسی زمانے میں انہوں نے نیو یارک کے بہت سارے اسکولوں میں شاعری کا درس دنیا شروع کیا۔اس درمیان ان کی نظمیں شائع ہوتی رہیں اور ان کی ستائش بھی کی جاتی رہی۔ ۱۹۹۸ ء میں شیشادری نے نیو یارک کے برانکس وِلمیں سارا لارینس کالج میں پہلے مہمان استادکے طور پر شمولیت اختیار کی اور پھر دو سال بعد باضابطہ استاد بن گئے ۔ اسی وقت سے وہ وہاں مصنف بننے کی خواہش رکھنے والے طلبہ کی تربیت سازی میں مصروف ہیں۔
اپنی عملی زندگی میں انہیں ان کی تخلیقی صلاحیت ، نقطہ نظر اور کام کرنے کے اصول نے کامیابی سے ہمکنار کیا جو گنے چنے شعراء کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ ان کی دیگر کامیابیوں میں ۲۰۱۴ ء میں ملنے والا پُلِٹزر پرائز اِن پوئٹری بھی شامل ہے جو ادب میں اپنی طرح کا سب سے معزز اور معتبر اعزاز ہے۔جس چیز نے انہیں یہ اعزاز دلوایا وہ تھری سیکشنس(نظموں کا مجموعہ) ہے جسے پُلِٹزر کمیٹی نے ’’ نظموں کا ایسا دلچسپ مجموعہ قرار دیا جو پیدائش سے لے کر ذہنی جبلت کے انحطاط تک انسانی شعور کے بارے میں ایسی زبان میں بات کرتا ہے جو تفریحی ہونے کے ساتھ سنجیدہ بھی ہے۔ اس میں غم خواری بھی ہے اور بے رحمی بھی۔ ‘‘
شیشادری کو جان سِمَن گگن ہیم میموریل فاؤنڈیشن،نیو یارک فائونڈیشن فار دی آرٹساور دی نیشنل انڈاؤ مینٹ فار دی آرٹس سے مالی عطیات بھی ملی ہیں۔
نوجوان مصنفین کے لیے ، جو اپنی تخلیقی صلاحیت سے اسی قسم کی کامیابی حاصل کرنے کی امید کرتے ہیں ، شیشادری کا ابتدائی مشورہ بہت ہی آسان ہے۔ اور وہ ہے ’’ پڑ ھو‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’آپ اپنے تخیل کے جنون کی مشق کے لیے لکھتے ہیں اور اسی جنون کی پرورش کے لیے پڑھتے ہیں۔آپ ایک مصنف نہیں بن سکتے ، اگر آپ کو مطالعہ کا شوق نہیں ہے ۔‘‘
اس کے علاو ہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کامیاب خواہشات کی بنیاد عمل میں پوشیدہ ہے۔ وہ مشورہ دیتے ہیں ’’مصنفین کو ہمیشہ ہی کچھ لکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔انہیں ہمیشہ ہم خیال مصنفین کی برادری کی تلاش ہونی چاہئے کیوں کہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مصنف الگ تھلگ ہوکر لکھ سکتا ہے ۔ ادیب تو چھوٹی اوربڑی برادریوں کی نسبت ہی سے لکھتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ہمیشہ اپنے کام کو مشترک کرنے اور اسے شائع کروانے کی جستجو کرنی چاہئے۔‘‘
اورجب بات خود تحریر کی ہوتی ہے تو شیشادری کہتے ہیں کہ قوت ِ یادداشت، استحکام ، صبر و تحمل اور تنوع اس کی کنجی اور بنیاد ہے۔ وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’میں اب تک سمجھ نہیںپاتاہوں کہ آپ کس طرح ایک نظم لکھتے ہیں۔ کبھی کبھی آپ بس اس پر کام کرتے ہیں اور ایک ہی چیز کو بار بار لکھتے رہتے ہیں جب تک کہ یہ عمل مکمل نہیں ہو جاتا ۔دوسرے اوقات میں یہ املا لکھنے کی طرح ہی آسان ہوتا ہے۔ لیکن یہ کبھی بھی کسی تحریر کی طرح نہیں ہوتا ۔ ‘‘
شیشادری بتاتے ہیں کہ لکھنے کا عمل خاصا طویل ، سخت اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’لیکن یہ اس توازن کو پھر سے بحال کرنے کا طریقہ بھی ہو سکتا ہے جسے انسانی تجربے نے آپ سے چھین لیا ہے ۔ یہ صحت بخش، قوت بخش اورواقعی دلچسپ ہے ۔ ‘‘
اگست ۲۰۱۹ء میں شیشادری ’دی پیرس ریویو‘ کے ۱۲ویں مدیر بنائے گئے۔’دی پیرس ریویو‘ ایک ادبی جریدہ ہے جس میں ادیبوں کی طبع زاد تخلیقات ، فن پارے اور معروف ادیبوں کے تفصیلی انٹرویو شامل کیے جاتے ہیں۔ تقرری کے بعد این پی آر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شیشادری نے بتایا کہ ادارت کا کام کرنا اپنی جمالیات کو وسعت دینا ہے۔ انہوں نے کہا’’ اعادہ اور واقفیت کی کمی کسی نہ کسی طور پرپُرجوش اور حیران کرنے والا تجربہ ہوسکتا ہے، خاص کر اس وقت جب ادیب کا سابقہ کسی ادب پارے پر تبصرہ کرتے وقت غیرمطلوب گذارشات سے پڑتا ہے اور ایسے میں وہ پُرجوش آوازوں کو سنتا ہے۔ اس وقت آپ کو لگتا ہے کہ آپ کوئی نئی چیز سن رہے ہیں گرچہ آپ کے آس پاس افراتفری مچی ہو اور ہنگامہ ہورہا ہو۔‘‘
۲۰۲۰میں شیشادری کی نئی نظموں کا مجموعہ ’’ دَیٹ واز ناؤ، دِس از دین‘‘ منظر عام پر آیا۔
مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای اوہیں۔و ہ نیو یارک سٹی میں رہائش پذیر ہیں۔
یہ مضمون پہلے پہل نومبر ۲۰۱۸ء میں منظر عام پر آیا۔
نہایت ہی عمدہ جانکاری۔میرا دل بھی چاہتا ہے کہ شیشا دری بنوں۔میں بھی مطالعہ کتب میں گم رہتا ہوں ادارت سے بھی گہری دلچسپی ہے کاش ایسا کام کبھی ہات آۓ ۔
بہرحال ششادری کافی محنتی اور سخت جان ادیب ثابت ہوۓ یہی وجہ ہے کہ وہ کامیابی کے اتنے زینے طے کرچکے ہیں ۔
میری طرف سے مبارکباد۔
فاروق شاہین
نہایت ہی عمدہ جانکاری۔میرا دل بھی چاہتا ہے کہ شیشا دری بنوں۔میں بھی مطالعہ کتب میں گم رہتا ہوں ادارت سے بھی گہری دلچسپی ہے کاش ایسا کام کبھی ہات آۓ ۔ بہرحال ششادری کافی محنتی اور سخت جان ادیب ثابت ہوۓ یہی وجہ ہے کہ وہ کامیابی کے اتنے زینے طے کرچکے ہیں ۔ میری طرف سے مبارکباد۔