کم سن شادی کی مخالفت

ٹی وائی ٹی ڈبلیو عالمی طور پر تصویر کشی کا استعمال کم سنی کی شادی کے نوجوان لڑکیوں پر اثر کی نشاندہی کے لیے کرتی ہے۔

جیسون چیانگ

December 2021

کم سن شادی کی مخالفت

نوجود علی طلاق کے دو سال بعد جب اس کی عمر صرف ۸ برس تھی۔ اس کی شوہر کی عمر اس سے ۲۰ برس زیادہ تھی۔ تصویر بشکریہ اسٹیفنی سینکلیئر

ہر سال، دنیا بھر میں، نوعمر لڑکیوں کی زبردستی شادی کردی جاتی ہے۔ بہت سارے ملکوں میں اس رواج پر پابندی عائد ہے اور عالمی معاہدوں کی رو سے بھی ان کی ممانعت ہے مگر اس کے باوجود یہ روایت بلاتفریق روئے زمین پر ابھی بھی زبان، مذہب اور طبقات سے قطع نظر جاری ہے۔ اقوام متحدہ آبادی فنڈ کے ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر پانچ میں سے ہر ایک لڑکی کی شادی اٹھارہ برس سے کم کی عمر میں ہی کر دی جاتی ہے۔ کم ترقی یافتہ ملکوں میں یہ تعداد دو گنی ہے۔ قریب قریب ۴۰ فی صد بچیوں کی شادی اٹھارہ برس کی عمر سے پہلے اور بارہ فی صد بچیوں کی شادی پندرہ برس کی عمر سے پہلے ہی ہو جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ’ٹو یَنگ ٹو ویڈ‘عالم گیر سطح پرنو عمر لڑکو ں اور لڑکیوں کی شادی کے خلاف لڑ رہی ہے۔ امریکی فوٹو صحافی اسٹیفن سنکلیئر نے اس تنظیم کو ۲۰۱۲ ءمیں قائم کیا تھا۔’ٹو یَنگ ٹو ویڈ‘ایک غیر منفعت بخش تنظیم ہےجوتصویر کشی کے ذریعہ عالم گیر سطح پر کم سن لڑکیوں کی شادی کے خوفناک اثرات کو اجاگر کرتی ہے۔

سنکلیئر کو بچوں کی شادی کے متعلق اس وقت معلوم ہوا جب وہ ۲۰۰۳ء میں افغانستان میں ایک اسٹوری پر کام کر رہی تھیں۔ اصل میں افغانستان میں خواتین اور بچیاں خودسوزی کر رہی تھیں۔ ان میں اکثریت ان کی تھی جن کی شادی کم عمری ہی میں کر دی گئی تھی۔سنکلیئر نے اسپَین کو بتایا’’میں اپنی سادگی کے سبب یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ اس طرح کا رواج اب دنیا سے ختم ہو گیا ہے ۔ مگر اس کے برخلاف جب مجھے جانکاری ملی تو مجھے بہت جھٹکا لگا۔ بس ’ٹو یَنگ ٹو ویڈ‘پروجیکٹ کی شروعات ہوگئی۔میں نے عزم کیا کہ میں کم سنی میں شادیوں کے رواج کو ختم کرکے ہی دم لوں گی۔ پھر اس کے بعد میں نے نیپال، اتھوپیا ، بھارت، تنزانیہ اوریمن ،حتیٰ کہ امریکہ کے بعض علاقوں بشمول نیویارک کے دورے کیے۔ ان دوروں کے دوران میں نے اس رواج پر تحقیق کی اور اس کی تصویر کشی بھی کی۔ ہر برادری میں مجھے ایسے شاندار افراد ملے جو اس سلسلے میں مدد کرنے کے خواہاں تھے۔‘‘

جن برادریوں میں کم سنی میں شادی کا رواج عام ہے ان کے خاندانوں پر اس روایت کو برقرار رکھنے کےلیے بے انتہا سماجی دباؤ ہوتاہے۔ اگر اس سے گریز کیا جائے تو ان پر طعنہ زنی کی جاتی ہے، ان کی مذمت کی جاتی ہے، ان کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہےاور سماج میں ان کا وقار مجروح ہوتا ہے۔سنکلیئر بیان کرتی ہیں ’’ایک بار افغانستان میں ایک ماں نے مجھے بتایا کہ انغان باشندے اپنی بیٹیوں کو اس لیے فروخت کر رہے ہیں کیوں کہ ان کے پاس دیگر بچوں کو کھلانے کے لیے کھانا نہیں ہے۔ ‘‘ حالاں کہ والدین اور برادریاں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خواہش مند ہوتے ہیں مگر وہ یہ قطعاً نہیں سمجھتے کہ چھوٹی عمر میں ان بچیوں کی شادی کرکے وہ ان کی تعلیم محدود کرر ہے ہیں، ان کو خطرات میں جھونک رہے ہیں اور ساتھ ہی مجبوری اور افلاس کے ایک چکر کو دوام بھی بخش رہے ہیں۔

سنکلیئر جو کہ ’ٹی وائی ٹی ڈبلیو‘ کی بانی اور ایکزیکٹو ڈائریکٹر ہیں ، دنیا بھر میں بچیوں اور خواتین کو درپیش چیلنجز کو اپنی بصری داستان گوئی کی طاقت کا استعمال کرکے بصری ثبوت کے ساتھ پیش کر رہی ہیں۔ ’ٹی وائی ٹی ڈبلیو ‘باہمت بچیوں اور خواتین کی آوازوں کو جلا بخشتی ہے تاکہ دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کی جا سکے اور عالمی برادری کے اندر صنف پر مبنی تعصب کوختم کرنے کا جنون پیدا کرنے کے ساتھ ان کو وسائل بھی مہیا کروائے جا سکیں۔

’ٹی وائی ٹی ڈبلیو ‘ کا مقصد موثر پیروی کو زمینی سطح پر خاطر خواہ عمل میں تبدیل کرنا ہے ۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ شراکت اور متاثرہ برادریوں میں اقدامات کی حمایت بھی شامل ہے۔

’ٹی وائی ٹی ڈبلیو‘ کی ایک موثر پہل تیزاب کے حملے کی شکار لڑکیوں کی پیروی کرنا بھی ہے۔واضح رہے کہ ایسے مرد جن کی یکطرفہ محبت کو لڑکیاں ٹھکرا دیتی ہیں ، وہ غصے میں آکر بدلہ لینے کی غرض سے ان لڑکیوں پر تیزاب پھینک دیتے ہیں جس سے ان لڑکیوں کا چہرہ اور جسم کے دیگر اعضا بری طرح جھلس جاتے ہیں اور شکل بگڑ جاتی ہے۔ ۲۰۲۰ء کے اواخر میں ’ ٹی وائی ٹی ڈبلیو‘ نے فوٹو صحافی سومیا کھنڈیلوال ، چھانو فاؤنڈیشن اور شیروز ہینگ آؤٹ کے ساتھ مل کر ایک فوٹو ورک شاپ منعقد کیا تھا جو اگلے برس لکھنؤ میں ایک آن لائن نمائش پر منتج ہوا۔ کھنڈیلوال نے ’اسپَین ‘ کو بتایا’’ ہماری سب سے بڑی کامیابی بعض شرکا کا اعتراف تھا۔ ان کا کہناتھا کہ اس سے قبل انہوں نے اپنی تصویر کھنچوانی بند کردی تھی کیوں کہ تیزاب کے حملے کے نتیجہ میں پیدا شدہ زخم کے نشانات سے انہی کافی دقت ہوتی تھی۔ اس ورکشاپ میں اپنی تصویر کشی کے ذریعہ انہیں خود کی وضع قطع سےروشناس کرایاگیا۔ خواتین اور اسٹیفینی کے ساتھ کام کرنا میرے لیے نہایت خوش گوار تجربہ رہا کیوں کہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ خواتین کے لیے ہے۔‘‘

اتر پردیش کے بجنور ضلع کی ایک لڑکی انشو۔ صرف ۱۵ برس کی عمر میں اس پر تیزاب پھینکا گیا جس نے اس کا چہرہ بگاڑ دیا۔ تصویر بشکریہ اسٹیفنی سینکلیئر

’ٹی وائی ٹی ڈبلیو ‘کے فوٹو ورکشاپ کے ذریعہ تیزاب حملوں کی شکار لڑکیوں کو ایک ساتھ جمع کیاگیا۔ اس ورکشاپ میں ان متاثرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے حقوق اور وقار کے تحفظ کا پختہ ارادہ کیا۔ اس ورکشاپ نے ان کے زخموں کو اجتماعی طور پر شفا بخشی۔ صوبہ اترپردیش کے ضلع بجنور کی ایک نو عمر لڑکی انشو پر جب تیزاب سے حملہ کیا گیا تو وہ محض ۱۵برس کی تھی۔ دراصل ۵۵ برس کے بوڑھے شخص نے عشق میں ناکام ہونے کے بعد انشو پر تیزاب سے بری طرح حملہ کردیا تھا۔ آج پیروی اور دیگر متاثرین کی حمایت کرکے انشو ہمت و بہادری کی مثال بن چکی ہے۔ تنظیم کے کارناموں میں ۲۰۱۸ء میں آئی آئی ایم لکھنؤ میں منعقد’ ٹیڈ ٹاک‘ میں تقریر کرنا اور ۲۰۱۹ء میں ’دی کوینٹُ کی جانب سےملنے والا ’ فیس آف کریج‘ انعام شامل ہیں۔ انشو نے لکھنؤ میں منعقد ’ٹی وائی ٹی ڈبلیو ‘تقریب میں بتایا’’ متاثرین کے درست علاج کے ذریعہ اور ان سے بات چیت کرکے ان کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ بات چیت کے ذریعہ میں ان کی امیدوں اور مستقبل کے منصوبوں کو جاننا چاہتی ہوں۔ اگر میں ایک زندگی بدلنے میں بھی کامیاب ہوگئی تو میں سمجھتی ہوں کہ میں صحیح سمت میں سفر کر رہی ہوں ۔ ‘‘

سنکلیئر کے ٹی وائی ٹی ڈبلیوتصویری سلسلے نے عالمی سطح پر خوب داد و تحسین حاصل کی ہے۔ اسے تین مرتبہ عالمی پریس فوٹو انعام سے نوازا جا چکا ہے۔ بے شمار معزز نمائشوں کے علاوہ اسے بشمول اقوام متحدہ (۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۴ء )اور وہائیٹنی بائیننیل(۲۰۱۰ء) میں بھی شرکت کرنے کا موقع ملا ہے۔

دسمبر ۲۰۲۰ء میں نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر نے اسٹیفنی اور شیروز کیفے سے منسلک تیزاب کے حملوں کی شکار آٹھ لڑکیوں کے ایک پینل کو مدعو کیا تھا۔ دراصل یہ تقریب سولہ روزکے ایک پروگرام ’’ایکٹوزم اگینسٹ جینڈر بیسڈ وائلینس‘‘کے اختتام کے موقع پر منعقد کی گئی تھی جس میں یوم انسانی حقوق بھی منایا گیا۔ تیزاب حملوں کی شکار لڑکیوں نے اپنی اپنی کہانیاں سنائیں اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح تصویر کشی نے انہیں تخلیقیت اور اظہار ِذات کا ایک پلیٹ فارم دیا۔

اس تقریب کو امیریکن سینٹرکے فیس بُک پیج پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مجازی نمائش ’’#تھرودی لینس ‘‘بھی منعقد کی گئی۔

’ٹو ینگ ٹو ویڈ‘ اور اسٹیفینی سنکلیئر کے بارے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے tooyoungtowed.org اور stephaniesinclair.comپر رجوع کریں ۔

جیسون چیانگ سلور لیک، لاس انجیلیس میں مقیم ایک آزاد قلم کار ہیں۔

 

 



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے