بے قابو شہری گرمی کا حل

محققین گرمی سے پیدا شدہ کشیدگی اور کاربن کے اخراج کے درمیان تعلق کے ادراک میں مصروف ہیں۔ وہ اس بات کی تحقیق بھی کر رہے ہیں کہ گرمی کی لہر شہری علاقوں میں اتنی شدت کے ساتھ کیوں محسوس کی جاتی ہے۔

جیسون چیانگ

June 2022

بے قابو شہری گرمی کا حل

 

بڑے شہروں میں گرمی  کی شدت زیادہ محسوس کی جاتی ہے کیو ں کہ فرشوں کی سطح اور عمارتوں سے گرمی کا اخراج عمل میں آتا ہے جو درجہ حرارت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ شہروں کی روز افزوں آبادی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ مسئلہ کو سنگین بنا دیتا ہے۔ اس کا مجموعی اثر یہ ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کو شدید  قسم کی مہلک گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قومی  اکادمی برائے سائنسز نے حال ہی میں ’’  شہری علاقوں میں رہائش پذیر عالمی آبادی کو شدید گرمی کا سامنا‘‘ نامی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گذشتہ چالیس برسوں کے دوران دنیا کے دس ہزار بڑے شہروں میں گرمی میں تقریباً دو سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

حالیہ دہائیوں میں سیکڑوں ملین افرادنے دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب ہجرت کی ہے۔ اور آج عالم یہ ہے کہ شہروں میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی بستی ہے۔ شہروں میں دیہی علاقوں کی بہ نسبت درجہ حرارت زیادہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شہروں میں کنکڑیٹ، اسفالٹ (تارکول اورریت کا مرکب سیاہ رنگ کا نیم ٹھوس چپکنے والا مادہ) اور دیگرٹھوس  چیزیں کثیر مقدار میں پائی جاتی ہیں جو گرمی کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہیں۔ اس عمل کو’’شہری  حدت کا جزیرائی اثر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس مطالعہ کی سربراہی کرنے والے اوررپورٹ کےشریک مصنف کاسکیڈ ٹوہولسکی کے مطابق ’’اس کے کافی گہرے اثرات مرتب ہوتے  ہیں۔‘‘

ٹوہولسکی اَرتھ انسٹی ٹیوٹ میں پوسٹ ڈوکٹورل محقق  ہیں جو فی الحال کولمبیا یونیورسٹی کے مرکز برائے عالمی اَرتھ سائنس انفارمیشن نیٹ ورک سے منسلک ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں ’’اس سے بیماریوں اور شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہےاور لوگوں کی کام کرنے کی صلاحیت پر برا اثر پڑتاہے جس کے نتیجہ میں معاشی تنگ دستی پیدا ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص پہلے سے کسی مرض میں مبتلا ہے تو وہ مرض بڑھ جاتا ہے۔  ‘‘

ان کی محققین کی ٹیم نے سیٹلائٹ سے کھینچی گئی تصویروں اور زمین پر نصب ہزاروں آلات سے حاصل شدہ اعداد وشمار کو یکجا کیا ۔ اس کی مدد سے اس ٹیم نے  ۱۹۸۳ ءسے ۲۰۱۶ ءتک  تیرہ ہزار سے بھی زائد شہروں کا زیادہ سے زیادہ یومیہ درجہ حرارت اور نمی کا تجزیہ کیا۔

گرمی کو اکثر’’خاموش قاتل‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ حالاں کہ ہمارے پاس ابھی گرمی کی لہر اور دنیا پر اس کے اثرات سے متعلق خاطر خواہ اعداد و شمار موجود نہیں ہے مگر ٹوہولسکی وضاحت کرتے ہیں  کہ ان کے مطالعہ کے مطابق ’ویٹ بلب عالمی درجہ حرارت پیمانہ ‘ پر تیس ڈگری سلسیس ’’شدید گرمی‘‘کے زمرہ میں آتی ہے۔ یہ ’’حقیقی محسوس‘‘ہونے والے گرمی کے اشاریہ کے مطابق تقریباً اکتالیس ڈگری سلسیس یا ایک سو چھ ڈگری فارن ہائیٹ کے مساوی ہے۔ اتنی شدید گرمی میں صحت مند لوگوں کو گھر کے باہر کام کرنے میں کافی پریشانی ہوتی ہے۔ کمزور افراد بیمار پڑ سکتے ہیں بلکہ ان کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اس مطالعہ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہروں میں مجموعی طور پر گرمی کا شکار ہونے والے ایک اعشاریہ سات بلین افراد ہیں۔ یعنی دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ۔ طبعی حرارت کی وجہ سے شہروں کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ گرمی کا شکار ہوا جبکہ شہری آبادی میں اضافہ کے سبب دو تہائی آبادی گرمی کی  گرفت میں آئی ۔

مطالعہ کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے ٹوہولسکی کہتے ہیں کہ اس سے پالیسی وضع کاروں کو کمزور افراد کو محفوظ رکھنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے میں مدد ملے گی’’یہ نہایت ضروری ہے کہ تمام متعلقہ افراد اس امرکا تعین کریں کہ کس شہرکو کس چیز کی ضرورت ہے۔ ہمارے  اعداد وشمار یہ بتانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں کہ آیا کسی خاص شہر میں زیادہ لوگوں اور خدمات کی منصوبہ بندی یا اس میں گرم اور مرطوب ایّام میں اضافہ ہونے والا ہے ۔ یا پھر دونوں صورت حال پیدا ہونے والی ہے۔‘‘

تفاوت کا مطالعہ

کلا سیتارام سری دھر بینگالورو کے ادارہ برائے معاشی اور معاشرتی تبدیلی کے مرکز برائے شہری امور تحقیق میں پروفیسرہیں۔ وہ بھارت کے شہروں میں شہر کاری کے عمل اور گرمی کے باعث پیدا شدہ کشیدگی میں اضافے کے درمیان باہمی تعلق کے مطالعہ میں مصروف ہیں۔۲۱۔۲۰۲۰ کے دوران فلبرائٹ ۔نہرو پرو جکٹ کے تحت پروفیسر سیتارام نے بھارتی شہروں میں نوسیع نواحات، علاقائی تغیرات اور اس کے اسباب پر اپنی تحقیق کی توجہ مرکوز کی تھی۔

ٹوہولسکی کی طرح سری دھرکا بھی ماننا ہے کہ شہری علاقوں میں توسیع اور ان میں گرمی کے باعث پیدا شدہ کشیدگی کے درمیان راست تعلق ہے۔پروفیسر سریدھر کہتی ہیں ’’ لیکن جہاں تک بھارتی شہروں کا سوال ہے تو یہاں ایک بہت ہی اہم بات یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ امیر شہر زیادہ گرم اور غریب شہر زیادہ ٹھنڈے ہیں۔زیادہ آمدنی، کاروں کے استعمال کی وجہ سے ہونے والا کاربن کا  اخراج، مسافروں کے لیے ناکافی عوامی ٹرانسپورٹ اور ٹھوس فضلہ کے اتلاف کے خراب بندوبست کے سبب بھارتی شہروں میں گرمی سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔‘‘

پروفیسر سریدھر کی تازہ ترین تحقیق کا مطمح نظروسط مدتی اور طویل مدتی عرصہ میں بھارتی شہروں میں کاربن اخراج کا اندازہ لگانا ہے۔ ان کے مطابق کووِڈ۔۱۹ عالمی وبا کی وجہ سے شہروں میں گرمی کی وجہ سے ہونے والی کشیدگی میں تخفیف ہوئی ہے کیوں کہ لوگوں نے باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا اور گھر ہی سے کام کررہے تھے۔وہ کہتی ہیں ’’میرے شروعاتی تخمینہ کے مطابق اگر موجودہ طرز جاری رہا تو۲۰۳۰ ءتک بھارتی شہر اوسطاً فی کس اعشاریہ آٹھ دو میٹرک ٹن کاربن کا اخراج کریں گے۔۲۰۵۰ءمیں اس میں اضافہ ہو کر اس کی شرح ایک اعشاریہ ایک سات میٹرک ٹن فی کس تک پہنچ جائے گی۔‘‘

فوری حل

مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے ٹوہولسکی اور سریدھردونوں ہی متفق ہیں کہ فوری حل کے طور پراخراج میں تخفیف کی جائے۔ ٹو ہولسکی کہتے ہیں ’’شہروں میں پیدا شدہ گرمی کی وجہ سے ہونے والی کشیدگی میں اضافے پر قابو پانے کے لیے اشد ضروری ہے کہ ہم گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کریں۔  اگرہم اپنے نظام توانائی میں تبدیلی کردیں تو ہم شدید گرمی کے وقوع سے خود کو محفوظ رکھ سکیں گے۔ دوم یہ کہ غربا کو راست نقد رقم ادا کی جائے تاکہ وہ ایئر کنڈیشن خرید سکیں  تاکہ انہیں گرم دنوں میں کام کے لیے باہر نہ جانا پڑے اور وہ خود کو شدید گرمی سے محفوظ رکھ سکیں۔‘‘

سریدھر کا ماننا ہے کہ کاربن کی تخفیف کے موثراقدامات کا نفاذ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم عمارت تعمیر کرتے وقت دور اندیشی کا مظاہرہ کریں۔وہ کہتے ہیں ’’آلودگی پیدا نہ کرنے والے ایندھن جیسے شمسی پینل کا بھارتی شہروں میں کثرت سے استعمال ہو رہا ہے ۔ علاوہ ازیں’ ہری عمارتوں‘ کا بھی تصور  پروان چڑ ھ رہا ہے۔ ان سے مراد ایسی عمارتیں ہیں جن میں دوبارہ کام آنے والے چیزوں کا بکثرت استعمال ہوتا ہے، قدرتی روشنی کے استعمال اور روشن دانوں کے سبب توانائی کم خرچ ہوتی ہے اور ماحول دوست چیزوں کا استعما ل ہوتا ہو۔‘‘

بہر کیف ٹوہولسکی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رہنماؤں کے ذریعہ راست اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہمیں اپنے شہروں کے  بنیادی ڈھانچہ  اور غریب طبقات میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جس سے موافقت پیدا کی جا سکے۔ اس کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ ہمارے پاس ایسے اوزار ہیں جن کی مدد سے گرمی کی شدت میں تخفیف کی جاسکتی ہے۔ ہمیں  اس کا استعمال کرکے فرق پیدا کرنے کو ترجیح دینی ہوگی۔‘‘

جیسون چیانگ لاس اینجلس کے سِلور اوک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔

 



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے