کوڑے سے اینٹ بنانا

نیکسس سے تربیت یافتہ اسٹارٹ اپ انگیرس کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کا کم اخراج والا اورمٹی سے تیار روایتی اینٹوں کا ایک ماحول دوست متبادل تیار کرنے میں کوڑے کا استعمال کرتا ہے ۔

ٹریور ایل جاکمس

July 2022

کوڑے سے اینٹ بنانا

وِرِکس پلاسٹک اور صنعتی فضلہ سے بنایا جاتا ہے۔ تصویر از رومن نووِٹسکی/آئی اسٹاک/گیٹی امیجیز اور بشکریہ اگنی رس(انسیٹ)

اینٹیں ان اشیاء میں سے ایک ہیں جن کو نظر انداز کرنا آسان ہے کیونکہ یہ  ہمیں ہر جگہ نظر آ  جاتی ہیں۔ ان کے تعلق سے ہم یہ بھی یاد نہیں رکھتے کہ  ایک اینٹ کی پیداوار کا ماحول پر کتنا اثر پڑتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسے تیار کرنے کے عمل میں توانائی اور زمین کی بالائی  انتہائی زرخیز سطح کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہی نہیں بھٹےمیں اینٹ کو پکانے کے عمل کے دوران ہر اینٹ ہوا میں سو گرام کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتی ہے ۔ اب آپ اگر ایک اینٹ کو لیں اور اسے بھارت  میں سالانہ تیار ہونے والی ۲۶۰  ارب اینٹوں سے ضرب کریں تو آپ پائیں گے کہ  اس مسئلے کو نظر انداز کرناممکن  نہیں ہے ۔

نیکسس سے تربیت یافتہ  انگیرس راجستھان کے اُدے پور میں واقع ایک اسٹارٹ اپ ہے جو روایتی اینٹوں کا بہتر متبادل تیار کرتا ہے۔  اسے کمپنی ورِکس کہتی ہے جو اصل میں کوڑے اور اینٹوں کے انضمام کا نام ہے۔ یہ متبادل ماحول دوست، کاربن نیوٹرل (کاربن کے اخراج اور فضا سے کاربن کو جذب کرنے کے درمیان توازن یعنی کاربن کو فضا میں خارج ہونے سے روکنا)، مضبوط، کم  وزن اور سستی شے کے طور پر  ایک انقلابی حل پیش کرتا ہے اور پائیدار تعمیراتی متبادل  کی جانب اشارہ کرتاہے۔

پیداوار کے روایتی طریقے

انگیرس کی شریک بانی کُنج پریت اروڑہ بتاتی ہیں کہ اینٹیں تیار کرنے کے روایتی طریقے غیر متوازن ہیں کیونکہ وہ جتنا وسائل فراہم کرتی ہیں اس سے کہیں زیادہ وسائل کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’مٹی کی روایتی اینٹیں بھٹوں میں تیار کی جاتی ہیں جن میں زمین کی بالائی زرخیز مٹی اورپانی کا استعمال کیا جاتا ہے اور اسے گرم کرنے کے لیے بایوماس ایندھن کا  استعمال کیا  جاتا ہے۔اس کے لیے مٹی اور چکنی مٹی کو نکالنے، ایک یکساں مرکب بنانے، سورج کی روشنی میں خشک کرنے اور کوئلہ اور بایوماس ایندھن کا استعمال کرتے ہوئے بھٹوں میں انہیں پکانے میں سات سے چودہ دن لگ جاتے ہیں۔‘‘

یہاں دو طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس میں نہ صرف پانی اور زرخیز مٹی کی شکل میں قیمتی وسائل خرچ ہو جاتے ہیں بلکہ بھٹہ جلانے کا  عمل نئی  آلودگی بھی پیدا کرتا ہے۔ اروڑہ  کا کہنا ہے’’ہر عمل کے اندر ماحول سے کچھ نہ کچھ لینے ( جیسے خام مال )اور ماحول کو کچھ نہ کچھ دینے ( فضلہ )جیسے اقدامات  شامل ہوتے ہیں۔‘‘

اینٹ تیار کرنے کے لیے بہت زیادہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ بھی کہ اس کا روایتی عمل ماحول دوست نہیں ہے۔ اروڑہ بتاتی ہیں ’’یہ طریقے ناکارہ  ہیں کیونکہ ان میں بہت زیادہ توانائی اور زمین کی بالائی سطح کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ماحول میں ذرات، کالے کاربن، سلفر ڈائی آکسائڈ، کاربن ڈائی آکسائڈ اورآلودہ کرنے والے دیگر مادے  بڑی مقدار میں خارج کرتے ہیں جو صحت اورماحول کے لیے شدید خطرہ ہیں۔‘‘

صفر فضلہ حل

انگیرس نےو رِکس میں ماحول دوست حل تلاش کر لیا ہے جس میں کوڑے کو  ایک مفید شے میں تبدیل کردیا گیا ہےجب کہ  بھٹے سے پاک پیداواری عمل میں کاربن کا کوئی اثر بھی پیدا نہیں ہوتا۔

ماحولیاتی فوائد کے علاوہ و رِکس کئی طریقوں سے روایتی اینٹ سے بہتر پیداوارہے۔ یہ پانی کے خلاف مزاحمت کرنے والی ہوتی ہے۔ اس پر نمی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ روایتی اینٹوں سے ۳۰ فی صد ہلکی اور مٹی کی روایتی  اینٹوں سے اتنا ہی  یا زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ اس طرح مالیاتی اور ماحولیاتی فوائد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اروڑہ کا کہنا ہے کہ آخر کار ۳۰ فی صد ہلکی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ورِکس نہ صرف ’’مجموعی ڈھانچہ جاتی وزن کو کم کرتی ہیں اور اس طرح لاگت میں کمی آتی ہے بلکہ مزدوروں کے کام کرنے کی صلاحیت میں بھی اس سے اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ نمی کا کوئی اثر نہیں لینے کی اس کی صلاحیت اور پانی کے خلاف اس کی مزاحمت ساحلی اور مرطوب ماحول میں خاص طور پر فائدہ مند ہوسکتی  ہے۔

اس کے ماحولیاتی فوائد سےبھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اروڑہ کہتی ہیں ’’ورِکس کا سب سے اہم ماحولیاتی فائدہ یہ ہے کہ یہ ہمارے قیمتی قدرتی وسائل اور پانی کو استعمال کیے بغیر تیار کی جاتی ہے  جو پہلے ہی بھارت میں ایک نایاب وسیلہ ہیں۔ اس کے علاوہ   ایسی اینٹوں کی تخلیق ماحول  مخالف گیسوں کے  اخراج کا سبب بھی نہیں بنتی ۔‘‘

 بازار کا جمود

اینٹیں  ابتدائی طور پر دنیا میں ہزاروں سال پہلے بنائی گئی تھیں، لہٰذا بازار میں تبدیلی کی خاطر  آمادگی پیدا کرنے کے لیے یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس اشارے کی ضرورت ہے کہ اکیسویں صدی کی اس پیش رفت سے کتنا زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ اروڑا کہتی ہیں ’’روایتی اینٹوں سے ورِکس کی جانب کسی کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنا کافی مشکل ہے۔ تاہم ہم نے ماحولیاتی طور پر باشعورمعماروں اور دیگر مکانات تعمیر کرنے والوں کی جانب سے بھی مثبت ردعمل دیکھا ہے۔ ہم لوگ پہلے یہیں سے شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘  وہاں سے اعتماد اور حقیقی دنیا کے اعداد و شمار حاصل ہونے کے بعد بازار میں توسیع میں تیزی لانا ممکن ہو جائے گا۔

اس انقلابی پیداوار کی تخلیق کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں نیکسس بہت مدد کر رہا ہے جہاں سے انگیرس تربیت حاصل کر چکا ہے۔ اروڑہ کہتی ہیں’’انگیرس اور میرے لیے نیکسس ایک بہترین موقع ثابت ہوا ہے۔ وہاں گزارا گیا وقت بازار کو گہرائی سے سمجھنے، قومی اوربین الاقوامی سرپرستوں سے رابطہ قائم کرنے اورمصنوعات کی توثیق میں کار آمد رہا۔ یہ ہم خیال لوگوں، اسی طرح کے دیگر  اسٹارٹ اپ اور دنیا بھر میں پرجوش لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم  کرنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔‘‘

اس پروگرام نے اروڑہ کو نیکسس کے ذریعے نیٹ ورک بنانا جاری رکھنے میں بھی مدد کی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’وہ لوگ مجھ سے اب بھی معلومات حاصل کرتے ہیں اور ہمیں ان کے رابطوں کا علم ہوتا ہے جو نیکسس کے ذریعے انگیرس کے بارے میں واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ امریکی مندوبین کی جانب سے بہت سے دیگر مواقع، ورکشاپس اور دیگر اجلاس کے بارے میں اشتراک کیا جاتا ہے جو ہمیں اس کا حصہ بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘‘

امریکہ کے ۲۰۵۰ء میں کاربن کی تعدیلی کے ہدف کے ساتھ، ورِکس کے لیے  دیگر بازاروں میں بھی داخل ہونا ممکن ہے۔ اروڑہ بتاتی ہیں ’’مجھے امریکی بازار  میں انگیرس کے لیے ایک بہترین موقع نظر آ رہا ہے۔ ہم اینٹوں کے بھٹوں سے ورِکس ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی کے ذریعہ ۲۰۵۰ء  تک امریکہ کو کاربن کی تعدیلی کے ہدف کو حاصل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

ٹریور لارنس جاکمس نیویارک سٹی میں تحریر، ادب اور معاصر ثقافت کی تدریس کرتے ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے