دی امیریکن رائٹرس میوزیم مصنفین کی عزت افزائی کرتا ہے ، انہیں یاد رکھتا ہے اور جدید اور تفاعلی نمائشوں کے ذریعے لوگوں کو پڑھنے اور لکھنے میں مصروف رہنے کی تحریک بھی دیتا ہے۔
September 2019
سیّاح ابتدائی مقامی امریکیوں کی زبانی روایات سے لے کر ۲۰ ویں صدی عیسوی تک مصنفین کے نمائندہ اقوال کی سلسلے وار نمائش کو دیکھتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ امیریکن رائٹرس میوزیم۔
قارئین کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ امریکہ کے قلب میں ایک ایسا عجائب گھر واقع ہے جہاں کتابوں کا نہ صرف احترام کیا جاتا ہے بلکہ ان کی اہمیت کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔ریاست ایلی نوائے کے بڑے شہروں میں سے ایک شکاگو میں دی امیریکن رائٹرس میوزیم (اے ڈبلیو ایم )نے ۲ برس پہلے اپنے دروازے شائقین کے لیے کھولے ،تا کہ انہیں تعلیم دی جائے، مصروف رکھا جائے اور امریکی ادیبوں کی تحریروں سے انہیں تحریک دی جائے۔
ملک بھر میں پھیلے ایک مصنف پر مرکوز عجائب گھروں کے قیام کی منظوری کے ساتھ (جن میں زیادہ تر وہ گھر ہیں جہاں مصنف رہا کرتے تھے)امیریکن رائٹرس میوزیم نے آخر کار ۵ صدیوں کے طویل عرصے پر بسیط قلمکاروں کو ایک ایسی جگہ عطا کی جسے وہ اپنا گھر کہہ سکتے ہیں اور یہ جگہ شکاگو کلچرل مائل پر واقع ہے۔ اسے پڑوس کے آرٹ انسٹی ٹیوٹ آف شکاگو کی مناسبت سے بالکل درست نام شکاگو کلچرل سینٹر اینڈ ملینیم پارک دیا گیا ہے۔ میوزیم کے سربراہ کیری کرینسٹن فخر کے ساتھ میوزیم کو اسے سفری اور سیاحتی معلومات شائع کرنے والے اشاعتی ادارے فوڈورسکے ذریعے دنیا کے سب سے بہترین میوزیم کی فہرست میں سب سے اوپر رکھے جانے اور یوایس اے ٹوڈے کے قارئین کے ذریعے اسے ایلی نوائے میں بہترین توجہ کا مرکز قرار دیے جانے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم اپنے سیاحوں اور حامیوں کے پُر جوش یقین سے کافی خوش ہیں جنہوں نے اس میوزیم کو تمام عجائب گھروں میں سر فہرست رکھنے کے لیے رائے زنی کی۔‘‘
اپنی طرح کے انوکھے اس عجائب گھر میں جب سیاح آتے ہیں تووہ میوزیم کے اسٹیڈ فیملی فاؤنڈیشن رائٹرس ہال کا نظارہ کرتے ہیں جہاں انہیں شاندار کَور آرٹ پیش کرتی مختلف رنگ کی کتابوں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے جن کی نمائش اس طرح سے کی گئی ہے گویا جیسے چھت سے کسی درخت کی شاخین لٹک رہی ہوں۔ دیوار پربنے امریکی نقشے پر چھوٹے چھوٹے سلسلے وار دائرے پس منظر میں پاپِنگ پَوپ کورن ٹائپ رائٹر کی پُر کشش آواز کے ساتھ مصنفین کے آبائی شہروں کی نشاندہی کرتے ہیں،جو پروجیکٹر پر دکھائے جانے والے ورڈ واٹر فال کی چمکدار اور بالکل ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی دیواروں میں کھو جاتے ہیں ۔ ان کے چہرے اور جسم لفظ امیریکن کے معنی اجاگر کرتے سیاہ پس منظر میں سفید روشنائی سے لکھے اقوال سے ڈھکے ہوئے ہیں۔
میوزیم کے بارے میں ایک مقامی مربی کہتی ہیں ’’ہم انتہائی خوش قسمت ہیں کہ شکاگو میں یہ گوہر نایاب موجود ہے۔ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ پرانے زمانے کے ٹائپ رائٹر اسٹیشن سے لے کر ٹچ اسکرین پر لکھنے کے کھیل جیسے مختلف کھیلوں کی دعوت قبول کرتے ہوئے ان مصنفین کے بارے میں مطالعہ کرنے اور لفظوں سے کھیلنے میں گھنٹوں گزارے ہیں۔‘‘
وہ اس میوزیم کے دیر پا اثرات کی ستائش کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتی ہیں ’’ عجائب گھر نے میری ٹیم کو یہاں اور گھر دونوں جگہ لکھنے کی مشق کو فروغ دینے کی تحریک دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عظیم تحریروں میں آمد کی کیفیت ہوتی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ یہاں جن مصنفین کو جگہ ملی ہے انہوں نے اپنے ہنر کو نکھارنے میں برسوں تک صرف مشق ہی کی ہے۔‘‘
میوزیم کے مڈل اور ہائی اسکول کے طلبہ کے لیے جاری باوقاررائٹ اِن یوتھ ایجوکیشن پروگرام کا مقصد طلبہ کو لکھنے کے ہنر میں مصروف رکھنا ہے۔ میوزیم کے اپنے اس پروگرام میں خصوصی طور پر تیار کیے گئے نصاب کے ساتھ باہر کا بھی دورہ شامل ہے۔ تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اعتماد کے ساتھ لکھنے کے لیے نوجوانوں کو تحریک دینے کی خاطر نصاب کو تیار کرنے میں نمائشوں کے ساتھ میوزیم میں رکھی گئی مصنفین کی تخلیقات کابھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پروگرام میں شرکت کرنے والے ایک طالب علم نے اپنے تاثرات یوں بیان کیے’’یہاں لکھنے کے مروّجہ طریقے سے میں حیران ہوں۔ غلطی کرنے، تحریرپر نظر ثانی کرنے اور پھر کچھ نیا تخلیق کرنے کی حوصلہ افزائی کا موقع ملنے کی میں ستائش کرتا ہوں۔‘‘
دیگر سیاحوں کو بھی یہاں تخلیقی صلاحیت کو ظاہر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہاں ایک ایسا تفاعلی شعبہ بھی ہے جہاں سیاحوں کو اپنے الفاظ اور ان کے معنی خلق کرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ میوزیم کا عملہ ایک جملے سے اس کا آغاز کرتا ہے۔ سیاح اس میں اضافہ کرکے اسے ایک کہانی کی شکل دیتے ہیں۔ یہ مصنفین کو مصروف رکھنے اور ان کے ہنر کی حوصلہ افزائی میں مدد کرتا ہے۔
امیریکن رائٹرس میوزیم میں ’’ورلڈ واٹر فال‘‘ روشنی سے چلنے والا ایک فن پارہ جس میں مصنفین کے اقوال کے ساتھ ادبی تاریخ کی نمائش بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے۔ تصویر بشکریہ رِک شا فوٹو، اِنک۔
میوزیم میں ہر قسم کی تحریر …..افسانوی ادب سے لے کر شاعری ، نغمہ نگاری اور ڈرامے سے لے کر غیر افسانوی ادب ، تقریر اور صحافتی تحریروں تک ، ہر نوع کی تحریر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔کرینسٹن بتاتے ہیں ’’یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کسی میں کوئی تفریق نہیں کی جائے گی ۔ ہم تو بس مصنفین کو یاد رکھنے والے اور ان کی عزت افزائی کرنے والے ہیں۔یعنی افسانوی اور غیر افسانوی دونوں اقسام کے ادب شامل کیے جائیں گے۔ اور جب آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو لازمی طور پر اس میں صحافیوں کو بھی شامل کرنا پڑے گا کیوں کہ جہاں تک احساس کو الفاظ میں ڈھالنے کا معاملہ ہے تو صحافی کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں۔‘‘
اسی طور پر میوزیم کا تمام عمر کے سیاحوں اور اور سامعین اور ناظرین تک رسائی کا عمل کافی جامع ہے۔ میوزیم معروف مصنفین ، شعراء ، تاریخ دانوں، منظر نامہ نگاروں اور پروفیسروں کے ذریعے پناہ گاہوں میں رہ رہے بے گھر کنبوں کے خواہش مند مصنفین سمیت اپنے ماحول میں رہنے والے کنبوں کے اسکول جانے والی عمر سے چھوٹے بچوں، ان کے والدین، طلبہ ، نوجوانوں اور بزرگوں کے لیے مختلف پروگرام اور تقریبات کا اہتمام کرتا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کی ایسوسی ایٹ جسٹس سونیا سوٹو میئر کے ذریعہ بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کتابوں بَوب ڈیلین: الیکٹرکسے اقتباس پڑھنا ہو یا ڈیلین کی۱۹۶۵ ء کے نیو پورٹ فوک فیسٹیول اور ۲۰۱۶ء میں ان کو ادب کا نوبل انعام دیے جانے کے درمیان کی ان کی تحریروں کی نمائش کا معاملہ ہو یا پھر فریڈرک ڈگلس اجیٹیٹر پر مرکوز خصوصی نمائش ہو جس میں ان کی ۱۸۴۵ ء میں لکھی گئی سوانح نیریٹو آف دی لائف آف فریڈرک ڈگلس ، اَین امیریکن سلیوعوامی دید کے لیے رکھی گئی ، یہ میوزیم سال بھر سیاحوں کی دلچسپی سے متعلق پروگرام کا انعقاد کرتاہے ۔میوزیم کی موجودہ نمائش ٹولس آف دی ٹریڈ میں معروف امریکی مصنفین ، شعراء ، منظر نامہ نگاروں ، ڈرامہ نگاروں اور صحافیوں کے ذریعہ استعمال کیے گئے ٹائپ رائٹررکھے گئے ہیں۔ یہ نمائش جون ۲۰۲۰ ء تک جاری رہے گی۔
ہلیری ہوپیک کیلیفورنیا کے اورِنڈ ا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ، ایک اخبار کی سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔
تبصرہ