امریکی معاشرے میں مسلمانوں کی کامیابی

امریکی معاشرے میں مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ ۳۵ لاکھ ہے جس میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔ امریکی معاشرے میں مسلمان ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔

شیئر امیریکہ

April 2024

امریکی معاشرے میں مسلمانوں کی کامیابی

۲۰۲۲ء کے ایک جائزے کے مطابق ۲۵برس یا اس سے زائد عمر کے زمرے میں امریکہ میں مسلمانوں کا کالج ڈگری حاصل کرنا زیادہ قرین از قیاس ہے ۔ اس کے علاوہ امریکہ کی مجموعی آبادی کے ۳۸ فی صد کے مقابلے مسلمانوں کے ۴۶ فی صد طلبہ کالج سے گریجویشن کرتے ہیں۔ (تصویر از ڈریزین زیگِک / شٹر اسٹاک ڈاٹ کام)

پیو ریسرچ سینٹرکے مطابق امریکہ میں رہائش پزیر مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ ۳۵ سے ۴۰ لاکھ کے درمیان ہے۔ ان میں ساڑھے تیرہ لاکھ بچے شامل ہیں ۔عالمی سطح پر اسلام تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے۔  پیو ریسرچ سینٹر کی ایک اور رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کے بڑے مذاہب میں اسلام سب سے تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے ۔اور اگر افزائش کی یہ شرح جاری رہتی ہے تو ۲۰۵۰ء تک مسلمانوں کی تعداد دنیا بھر میں عیسائیوں کی تعداد کے قریب قریب ہو جائے گی۔

ادھرسماجی پالیسی اور فہم کے انسٹی ٹیوٹ (آئی ایس پی یو) کے ۲۰۲۲ء کے ایک جائزے  میں یہ بات بھی سامنے آئی  ہے کہ امریکی افواج میں خدمات انجام دینے والے امریکی مسلمانوں کی شرح عام لوگوں کے مقابلے میں تھوڑی سی زیادہ ہے۔

آئی ایس پی یو امریکی مسلمانوں پر اثرانداز ہونے والے رجحانات پر نظر رکھتا ہے۔ اس ادارے نے ’امریکی مسلمانوں کے ۲۰۲۲ءکے سروے بعنوان سیاسی اور وبائی امراض کے حوالے سے ایک پورٹ‘ میں کہا کہ یہ ’’جائزہ امریکی مسلمانوں کی آبادی کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کرتا ہے۔ ایک پروان چڑھتی ہوئی اور تبدیل ہوتی ہوئی کمیونٹی کی شبیہ کو مزید بہتر بنانے کے لیے اِن معلومات میں فوجی سروس اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سمیت ماضی کے اور نئے اشاریوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

اگست ۲۰۲۲ءمیں جاری ہونے والی یہ رپورٹ آئی ایس پی یو کی چھٹی سروے رپورٹ ہے۔ اس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی گروہوں اور ایسے لوگوں کا بھی سروے کیا گیا ہے جو کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔ اس میں امریکہ کے معاشی اور علمی شعبوں میں مسلمانوں کی خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

آئی پی ایس یو کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ۲۵سال یا اس سے زائد عمر کے امریکی عوام کے مقابلے میں مسلمانوں کے کالج کی ڈگری حاصل کر چکنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے جب کہ مجموعی طور پر ۳۸فی صد امریکیوں کے مقابلے ۴۶ فی  صد مسلمانوں کے کالج سے گریجوایشن کر چکنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔

جائزے  سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ۸ فی صد  امریکی مسلمان اپنے کاروبار میں خود ملازمت کرتے ہیں یا اُن کا اپنا ذاتی کاروبار ہوتا ہے۔ آئی ایس پی یو کا کہنا ہے کہ کاروبار کا ہر مسلمان مالک اوسطاً آٹھ کارکنوں کو ملازمت دیتا ہے اور ایک تخمینے کے مطابق کاروباروں کے مسلمان مالکان اندازاً ۱۴ لاکھ  امریکی ملازمتوں میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

چھوٹے کاروبار (جن میں ۵۰۰ سے کم ملازمین ہیں) امریکی معیشت کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ امریکہ میں ۳۲ اعشاریہ ۵ ملین چھوٹے کاروبار ہیں اور انہیں امریکی کمپنیوں میں اکثریت حاصل ہے۔

واشنگٹن یونیورسٹی کے فوسٹر سکول آف بزنس میں کنسلٹنگ اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل ورشو نے ۲۰۲۲ءمیں شئیر امیریکہ کو بتایا کہ امریکہ کی مسلم آبادی ۴۰لاکھ کے قریب پہنچنے والی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے کاروباروں کے مالکان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ورشو نیویارک شہر کے مسلمانوں کی اندرونِ ملک اور دنیا میں ضروریات پوری کرنے والے ۹۶ ہزار  کاروباروں اور ریاست مشی گن کے ۳۶ ہزار کاروباروں کا حوالہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی کاروباری نظامت کے پیمانوں کے طور پر دیتے ہیں۔

ورشو نے کہا ’’امریکی مسلمانوں کی ملکیت والے چھوٹے کاروباروں کی ترقی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہ کاروبار دنیا بھر میں خریداروں اور گاہکوں کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔‘‘

بشکریہ : شیئر امیریکہ


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے