لمحہٴ فکریہ:عادتِ طعام کرہٴ ارض پر اثرانداز

نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کی جانب سے جے پور میں اس سال منعقد ہوئی ایک تقریب میں مصنف جوناتھن سفران فوئر اور جیفری گیٹل مین نے گفتگو کی۔

May 2021

لمحہٴ فکریہ:عادتِ طعام کرہٴ ارض پر اثرانداز

کتابیں انسانوں کو قریب لاتی ہیں،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان دنیا کے کس خطے میں مقیم ہے۔

لمحہٴ فکریہ:آپ کی عادتِ طعام کرہٴ ارض پر اثرانداز ہوتی ہے

        نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے زیر اہتمام جے پور لٹریچر فیسٹیول میں مصنف جوناتھن سفران فوئیراور صحافی جیفری گیٹل مین نے اس بات پر تبادلہٴ خیال کیا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں روزمرہ کے اقدامات کیسے اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

        کتابوں میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کی طاقت ہوتی ہے حتیٰ کہ کتابیں دنیا کی دوسری جانب کے لوگوں کو بھی اکٹھا کر سکتی ہیں۔

        نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے نارتھ انڈیا آفس نے حال ہی میں ورچووَل جے پور لٹریچر فیسٹیول ۲۰۲۱ء  میں آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق ایک اجلاس کا اہتمام کیا تھا۔ ٹیم ورک آرٹس پرائیوٹ لمیٹڈ کے زیر اہتمام اس میلے میں گذشتہ دہائی کے دوران تقریباً دو ہزار مقررین شرکت کر چکے ہیں جن میں اوپرا ونفرے، پاؤل بیٹی اور امرتیہ سین وغیرہ شامل ہیں۔ میلے نے بھارت اور دنیا بھر کے ایک ملین سے زیادہ شائقینِ ادب کی میزبانی بھی کی ہے۔

        این آئی او لٹریچر فیسٹیول میں تقریبات کے اہتمام کے ذریعے شمالی بھارت میں فنون اور ثقافت سمیت امریکہ اور بھارت کے لوگوں کے درمیان کئی طرح کے روابط کی حمایت کرتا ہے۔اس سال آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق اجلاس کے علاوہ این آئی او نے کاروبار میں خواتین کی آواز بلند کرنا کے موضوع پرمختصر ویڈیو سیریز کا اہتمام کیا اور اس کے ساتھ ہی ”تکالیف سے پُرانجام: حقیقت سے اقتدار تک“کی خصوصی اسکریننگ بھی کی۔ سابق امریکی نائب صدر ایل گور کی اس فلم کی نمائش موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں امریکی حکومت کی حمایت کی اہمیت کی نشاندہی کرتی ہے۔

۲۸فروری کو سفارت خانے کے زیر اہتمام اجلاس کے دوران امریکی مصنف جوناتھن سفران فوئیر اور نیویارک ٹائمز کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف  جیفری گیٹل مین نے فوئیر کی۲۰۱۹ء کی کتاب ”ہم موسم ہیں: ناشتے پر سیارے کو تحفظ فراہم کرنے کا آغاز ہوتا ہے“ پر بات چیت کی۔ فوئیر اور گیٹل مین نے اس بات پر تبادلہٴ خیال کیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوششوں میں روزمرہ کے کام کس طرح وقت گذرنے کے ساتھ اثراندازہوسکتے ہیں۔

        امریکی ناظم الامور ڈونالڈ ایل ہیفلِن کا کہنا تھا کہ اس اجلاس کا اہتمام کرکے امریکی سفارت خانہ نے ”موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں امریکہ کی عہد بستگی کو نمایاں کرنے“کی امید کا اظہار کیا ہے۔

        انہوں نے مزید کہا”بھارت، امریکہ اور پوری دنیا میں اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ امریکہ اور بھارت دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں اور دنیا کی پہلی اور پانچویں بڑی معیشت کی حیثیت سے اس چیلنج کا مقابلہ کریں گی۔ لیکن انفرادی طور پر بھی یہ سب کی  ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ مصنف جوناتھن سفران فوئیر اسی پہلو پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ پیش خدمت ہیں فوئیر اور گیٹل مین کے درمیان بات چیت کے اقتباسات۔

 آپ کی کتاب کس چیز کے بارے میں ہے اور آپ نے اسے کیوں لکھاہے۔

        کہانیاں ہمیشہ کسی مسئلے کی وجہ سے معرض  وجود میں آتی ہیں۔ یہ میرا تجربہ رہاہے خواہ وہ افسانوی ہو یا غیر افسانوی۔ میں بالکل نہیں جانتا کہ افسانوی ادب کے ساتھ میرا مسئلہ کیا ہے۔ میں اسے آسانی سے بیان نہیں کرسکتا۔اس کے تعلق سے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے اندر کچھ بے چین سا بیٹھا ہے یا کوئی ایسی چیز ہے جس کا اب تک کوئی حل نہیں مل پایا ہے۔ افسانوی ادب سے کوئی مسئلہ تو حل نہیں ہوتا لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کے اشتراک کے لیے یہ اسے الفاظ کی شکل دے۔ جہاں تک غیر افسانوی ادب کا معاملہ ہے تو میرے لیے یہ ان مسائل کے بارے میں رہا ہے جن کو میں نام دے سکتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اس کتاب کے آغاز میں کیا ہے جو مجھے کھائے جارہا ہے۔

”ایٹِنگ انیمیلس“ میری پہلی غیر افسانوی کتاب تھی جو اس چیز کے بارے میں تھی جو میرے لیے بچپن سے ہی پریشانی کا باعث رہی تھی۔ یہ میری زندگی کے سب سے پرانے مسئلوں میں سے ایک مسئلہ رہا ہے اور یہ مسئلہ تھا کہ میں گوشت کھانے کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہوں؟

”ہم موسم ہیں“کی بھی تخلیق کی وجہ ایک پریشانی ہی رہی جسے میں اپنی کتاب میں بیان کرپایا۔ اور یہ وہ تھا کہ کوئی شخص آب و ہوا کے بحران کے اس دور میں کیسے زندگی گزارے گا؟ مجھے معلوم تھا کہ سائنس کیا ہے کیوں کہ ایسی صورت حال میں ہر شخص جانتا ہے کہ سائنس کیا چیز ہے؟ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ بیان بازی کیا ہے۔ میں جانتا تھا کہ کس قسم کے پوسٹر بنائے جائیں اور یہ کہ کس قسم کی ریلیوں میں مجھے شرکت کرنا چاہیے۔ لیکن روز مرہ کی زندگی کی سطح پر اور ان انتخابات کی بنیاد پر جو میں اپنے اور اپنے کنبے کے لیے کرتا، اس کا مجھے صحیح علم نہ تھا یا بہت ہی کم علم تھا۔ لیکن میں اس سے باخبر تھا کہ مجھے جتنا کرنا چاہیے میں نہیں کر رہاہوں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جسے میں نے زیادہ تر اوقات  نظرانداز کرنا آسان سمجھا تھا لیکن یہ میرے پس منظر میں ہمیشہ موجود رہا تھا۔ تقریباً دو یا تین برس پہلے جب یہ خبروں میں سرخیاں حاصل کرنے لگا تو پھر ایک چھوٹا سا دریچہ کھلا۔ میرے خیال سے اس نے میرے اندرونی بحران کو میرے سامنے لا کھڑا کیا۔

        یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ایک مصنف ہوں کیوں کہ میں چیزوں کے بارے میں سوچنے کے لیے وقت اور جگہ مختص کرنے کا اہل ہوں۔ لہٰذا میں نے اس سوال کے لیے کہ ماحولیاتی بحران کے اس دورمیں فرد کی حیثیت سے کیسے زندگی جینا ہے، کچھ وقت اور جگہ مختص کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک چیز جو مجھے خاصی دلچسپ لگی وہ آپ کا خیال تھا کہ اگر کوئی مسئلہ بہت بڑا ہے تو یہ تقریباً ناقابل یقین حد تک خراب ہے۔ اگر یہ مسئلہ اتنا بڑا اور خوفناک ہے تو ہم اس چیلنج کو سمجھنے میں اتنا مصروف نہ ہوجائیں کہ یہ ہمارے لیے بے عملی کا سبب بن جائے۔

 اس کے بارے میں اور  اس پر قابو پانے کے طریقے کے بارے میں ہمیں ذرا اوربتائیں۔

        آب و ہوا میں تبدیلی کسی بھی طرح سے انوکھی چیز نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک مسئلہ ہے لیکن ہم اس پر یقین نہیں کرتے۔ میں شاید دن بھر میں دس چیزوں کے بارے میں سوچ سکتا ہوں جو اس زمرے میں شامل ہوں۔ ان میں سب سے واضح یہ ہے کہ ہم سب مرنے والے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں لیکن ہم ایسے طریقے تلاش کرتے ہیں جس سے اس کے بارے میں ہم خیال ہی نہ کریں اور یہ شاید اس حد تک پہنچ جائے کہ ہم یہ ماننا ہی چھوڑ دیں کہ ایسا ہونے والا ہے۔

        ایک بہت وسیع اتفاق رائے ہے کہ انسان کی وجہ سے آب و ہوا میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے لیکن یہ معلوم ہونے کے بعد بھی ہم کیا جانتے ہیں۔ میرے خیال سے ہم میں سے زیادہ تر لوگ جن میں میں خود شامل ہوں، اکثر اس پر یقین ہی نہیں کرنا چاہتے۔

ہم اس پر کیسے قابو پاسکتے ہیں؟ یہ تو بہت بڑا، بہت برا اور بہت سنگین مسئلہ ہے۔

        یہ واضح نہیں ہے کہ ہم اسے انجام دے سکتے ہیں۔ اس مسئلے کے خلاف کارروائی میں یہ خیال بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ دراصل کووِڈ سے اس کا موازنہ کرنا دلچسپ ہوگا۔ آخر ایسا کیوں تھا کہ ہم نے کووِڈ سے محفوظ رہنے کے لیے ایسی کارروائی کی۔ ایسا کیوں ہے کہ بڑے پیمانے پر لوگ خود کو الگ تھلگ رکھنے پرراضی ہو گئے۔ کیوں لوگ بڑے پیمانے پر ماسک پہننے اورباقاعدگی سے اپنے ہاتھوں کو دھونے کے لیے تیارہو گئے۔ ایسا کیوں ہے کہ شہرکے شہر اپنی معیشتوں کو بند کرنے پر راضی ہو گئے۔ مختلف ممالک اپنی معیشتیں مقفل کرنے پر آمادہ تھے اور اپنی پالیسیوں کو یکسر تبدیل کرنے کے لیے تیارتھے کہ کون سفر کرسکتا ہے اور یہ کہ کب اور کہاں کس طرح کے کاروبارکیے جا سکتے ہیں۔

        میرے خیال میں یہ اس لیے ہے کہ ہم خوفزدہ تھے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم کسی خیالی انداز میں یا پھر دوسرے لوگوں کے لیے خوفزدہ نہیں تھے اور نہ ہی مستقبل میں زندگی گزارنے والوں کے لیے ہمارا یہ حال تھا۔ بلکہ ہم لوگ تو اپنی ہی فلاح و بہبودکے تئیں خطرے کو محسوس کرتے ہوئے خوفزدہ تھے۔

        ابھی ایسے لوگ ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی کا شکار ہیں اور اپنی زندگیاں گنوا رہے ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر وہ آب و ہوا کی تبدیلی کے مرتکب نہیں ہیں۔ وہ ایسے لوگ نہیں ہیں جو ان ممالک میں رہ رہے ہیں جو ان حالات کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں جن حالات کا ہم اب سامنا کر رہے ہیں۔

 تو ہم کس طرح ان ممالک میں لوگوں کو راضی کریں گے یا ان رہنماؤں کو راضی کریں گے جو کارروائی کے لیے موسمی تبدیلیوں کے اثرات  سے خود خوفزدہ نہیں ہیں۔ یہ ہمارے سامنے ایک چیلنج ہے۔

        میں اپنی کتاب میں اسے قانون سازی کی تبدیلی اور نظامی تبدیلی کے لحاظ سے بہت زیادہ نہیں دیکھتا ہوں اور یہ ضروری بھی ہے۔ میں اسے انفرادی تبدیلی کے نقطہٴ نظر سے دیکھتا ہوں جو لازمی ہے۔ ضروری کاموں کو  انجام دینے کے لیے ہم بحیثیت فرد اپنی نفسیات پر کیسے قابو پاسکتے ہیں۔ یہ اہم بات ہے اور میرے خیال سے اسے اصول و ضوابط اور معمول کے مطابق انجام دینا ہے۔

         میں آپ سے پوچھوں کہ اگر آپ کسی اسٹور میں جاتے ہیں اور آپ کو کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جو آپ بہت زیادہ پسند کرتے ہیں تو آپ خود کو اس بات پر کیسے راضی کریں گے کہ آپ اس کی چوری نہ کریں؟ کیا آپ کو معاشرتی معاہدہ یاد ہونا چاہیے، کیا آپ کے اندر دکاندار کے تئیں سخت احساس ہونا چاہیے اور یہ کہ آپ کیوں ان کی جیب سے پیسے نہیں نکالنا چاہیں گے؟ میرا اندازہ ہے کہ آپ کہیں گے کہ واقعتاً میرے اندر کسی بھی قسم کی داخلی بحث جاری نہیں ہے۔ میں بس اس لیے چوری نہیں کروں گا کیوں کہ میں چوری نہیں کرتا۔ اورمیر ی شخصیت یہی ہے۔

        لہٰذا ہمیں کسی طرح خود کو ایسے لوگوں میں تبدیل کرنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے سیارے سے چوری نہیں کرتے اور نہ ہی مستقبل سے چوری کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی طرح کی مضبوط سوچ یااحساس پیدا کرنے کی ضرورت کے بوجھ کو ہمیں ہٹانا ہے اور ہمیں اپنی عادات کو شکل فراہم کرنا ہے۔

        اس کتاب میں خاص طور پر میں نے کھانوں اور کھانے پینے کے طریقوں کے بارے میں لکھا ہے جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ فرد کے طور پراور ماحول کے تناظر میں یہ اہم ترین انتخاب ہے۔ اگر ہم اپنے لیے کسی قسم کی تدبیریں ترتیب دے سکتے ہیں جیسے کہ عادات کا ایک مجموعہ جس کے بارے میں ہم واقعتاً نہیں سوچتے ہیں بلکہ ہم ان کو صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری شخصیت ایسی ہی ہے اور یہی وہ کام ہیں جنہیں ہم کرتے ہیں۔ یہ کہیں زیادہ آسان ہے اور اس میں کامیاب ہونے کا امکان بھی اس سے کہیں زیادہ ہے کہ ہم اپنے درمیان  ایک کبھی نہ ختم ہونے والے مباحثے میں شامل رہیں۔

        میں کھانے کے مسئلے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ یہ اس بات کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جس میں آپ کو دلچسپی ہے۔ یہ کتاب کس چیز کے بارے میں ہے اور آپ کی گذشتہ کتاب کا موضوع کیا تھا۔ آپ کاربن ڈائی آکسائڈ کے مساوی مقدار کے بارے میں بات کرتے ہیں جو مختلف کھانے کی اشیا ء تیار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ گائے کے گوشت کے لیے۶ اعشاریہ ۶۱، پنیر کے لیے ۲اعشاریہ ۴۵ اور سور کے گوشت کے لیے ۱ اعشاریہ ۷۲ کی ضرورت ہے۔ ہمارے مختلف قسم کے کھانوں جیسے انڈوں اور دودھ میں اس کی مختلف مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔اور جب آپ سبزیوں کا رخ کرتے  ہیں تو سبزیوں کے لیے ضروری کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار کی ضرورت بہت کم ہوتی ہے۔ گاجر میں صفر اعشاریہ صفر سات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ گائے کے گوشت کے لیے ضروری کاربن کا تقریبا َسوواں حصہ ہے۔ لیکن آپ خود بھی اس پر صحیح طریقے سے عمل کرنے میں آسانی محسوس نہیں کرتے۔ آپ کو خود اپنے کھانے سے گوشت کو ہٹانے میں جدوجہد کرنی پڑتی ہے کیوں کہ یہ ہماری عادتوں کا ایک حصہ ہے۔

اب میں آپ سے وہ سوال پوچھوں گا جو آپ اپنی کتابوں میں اٹھاتے ہیں۔ آپ بنیادی تبدیلی کے لیے کس طرح بحث کر سکتے ہیں اور آپ اپنے بچوں کی پرورش سبزی خور کی حیثیت سے کیسے کر سکتے ہیں جب کہ آپ خود لذت کام و دہن کے لیے گوشت کھاتے ہیں؟

        گوشت سے متعلق آپ کے خیالات جو بھی ہوں لیکن ہر ایک کو یہ معلوم ہے کہ ہم کسی سنجیدہ چیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ یہ بارہا ہوتا ہے کہ میں اس موضوع پر کسی تحریر کو پڑھ رہا ہوتا ہوں اور کوئی کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ آپ کے خیال میں آپ کون ہیں جو کسی اور کو گوشت کھانے سے منع کر رہے ہیں؟ میرے والدین کہتے ہیں کہ میرے دادا اور دادی نے اسے کھایا تھا اور یہ کہ یہ صحت مند کھانا ہے۔ اور جس طرح سے میں ہمیشہ اس کا جواب دیتا ہوں کہ ہم واضح طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اہم ہے۔ اگر میں اس بارے میں بات کروں کہ ہمیں کشید کیے ہوئے پانی کے بجائے کاربونیٹیڈ پانی کیوں پینا چاہیے تو کوئی بھی کھڑا نہیں ہوگا اور پریشان نہیں ہوگا۔ اس موضوع پر لوگ پریشان ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ طبعی طور پر جانتے ہیں کہ یہ بازی اعلیٰ قسم کی ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا نقطہ ٴ آغاز ہے۔ اس سے فرق پڑتا ہے اور اس سے اس طرح فرق پڑتا ہے کہ یہ ہمیں کمزور بناتا ہے۔ یہ ہمیں اکثر جارحانہ یا دفاعی حالت میں ہونے کا احساس دلاتا ہے۔

        اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ آئندہ دس برسوں میں آدھے امریکیوں کے سبزی خور بننے کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں تو میں کہوں گا رکاوٹیں صفر ہیں۔ امریکہ میں کھایا جانے والا آدھا کھانا دس برسوں میں سبزی پر مشتمل ہوگا، اس کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں تو میرا  یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ لہٰذا اگر ہم شناخت کے نقطہٴ نظر سے اسے دیکھ رہے ہیں تو وہ بہت مختلف چیزیں ہیں۔ اگر ہم اسے نتائج کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں توتباہی کی مقدار کو کم کرنا اور تشدد کی مقدار کو کم کرنا ایک جیسی چیزیں ہی ہیں۔ لیکن ہم صرف شناخت، اپنی شناخت کی تکمیل کے تعلق سے ہی سوچنے کے قابل ہونے کے عادی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس اتنے سارے اور ایسے متعدد نام ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کس طرح کھاتا پیتا ہے۔آپ ایک نبات خور ہیں، سبزی خور ہیں، ماہی خور ہیں، کبھی کبھی گوشت اور مچھلی کھانے والے ہیں اور کم گوشت کھانے والے ہیں۔ میں ان تمام نظریے سے اس کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ میرے خیال میں میں کمزور تھا اور کیوں کہ شناخت کا دعویٰ کرنا اچھا لگتا ہے، لہٰذا اسی لیے ایسا سوچا کرتا تھا۔ لیکن ہمیں ان اچھے اور برے احساسات کے بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا جو ہمیں ان نتائج سے دور لے جاتے ہیں جو ہم واقعتاً چاہتے ہیں۔

        اس کے بجائے اگر ہماری گفتگو میں تھوڑی سی زیادہ لچک ہو، معافی کا مادہ ذرا زیادہ ہو، تھوڑی زیادہ عاجزی ہو تو ہم یہ کہنے کے قابل ہوں گے کہ دیکھو میں جانتا ہوں کہ میرے اپنے معیارات کے مطابق نہ کہ کسی دوسرے کے معیارات کے مطابق کون سا صحیح کام ہے جوکرنا ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ میرے خیال میں کون سا صحیح کام ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں ہمیشہ ایسا نہیں کرسکتا کیوں کہ میری اپنی خواہشات ہیں، کیوں کہ میں سست ہوں، کیوں کہ ہم نامکمل ہیں اور کیوں کہ ہم انسان ہیں۔ ایسی صورت میں ہم واقعی بہت زیادہ کام کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

        ایسا ہر وقت ہوتا ہے کہ جب بھی میں کوئی تحریر پڑھتا ہوں ہر وقت کوئی میرے پاس آتاہے اور کچھ ایسا کہتا ہے جیسے، ارے میں آپ کی کتاب پڑھتا ہوں۔ میں تین ہفتوں سے سبزی خوربن چکا ہوں اور یہ جذبہ اب مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ میں اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ایک جانب جہاں یہ بہت اچھا لگتا ہے تو وہیں دوسری طرف میں ان سے اکثر کہتا ہوں کہ بس اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ خود کو کامیابی کے لیے نہ کہ ناکامی کے لیے تیار کررہے ہیں کیوں کہ آپ جو بات کہہ رہے ہیں وہ اکیس وقت کے کھانوں کے بارے میں ہے جس میں آپ سبزی خور رہے ہیں۔ کیا ہواگر۲۲ ویں وقت کے کھانے پر آپ کسی طرح کا گوشت کھا لیں۔ تب تو آپ پھر سبزی خور نہیں رہے۔اس وقت جتنے سبزی خور موجود ہیں اس سے پانچ گنا زیادہ وہ لوگ ہیں جو پہلے سبزی خور تھے۔ اور میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس اصطلاح کے بارے میں سوچتے ہیں جو کہتا ہے کہ سب کچھ ہے یا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک دو عددی بنیاد ہے، آپ ہیں یا آپ نہیں ہیں۔

         اگر اس کے بجائے وہ شخص میرے پاس آتا اور کہتا کہ آپ نے کھانے اور ماحولیات کے درمیان تعلقات یا جانوروں کی بہبود یا کسی بھی چیز کے  بارے میں جو کہا ہے میں اس کے بارے میں سوچتا رہا ہوں اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ جتنا ممکن ہو میں اتنا کم سے کم گوشت کھاؤں اوریہ بھی کہ میں نے تین ہفتوں سے گوشت نہیں کھایا ہے۔ اگر وہ شخص اپنے بائیسویں کھانے میں گوشت کھاتا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ بائیس میں سے اکیس مرتبہ میں نے یہ کر دکھایا ہے تو یہ ایک بڑی بات ہے اوراس کی کامیابی کی شرح حیرت انگیز بھی ہے۔ آپ کیا کر نے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کی وضاحت سے عین نتائج کو مکمل ناکامی یا حیرت انگیز کامیابی کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ لہٰذا میں سخت شناختوں کے لحاظ سے ان چیزوں کے بارے میں نہیں سوچنے کو ترجیح دیتا ہوں لیکن اس قسم کی وجہ اور تاثیر کے سلسلے کو جس میں ہم حصہ لینا چاہتے ہیں، ترجیح دیتاہوں۔

عام خیال ہے کہ قدیم انسان آج کے مقابلے بہت مختلف زندگی گزار رہا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم گوشت کھانے کے لیے بنے ہیں کیوں کہ ہمارے جسموں کو ایسے تیار کیا گیا ہے کہ ہم کبھی کبھی تھوڑا سا گوشت کھا لیں۔ آپ سے میرا سوال ہے کہ ماحولیات کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی عادات کو تبدیل کرنے کی ضرورت کے ساتھ آپ کیسے صلح کر سکتے ہیں؟

        ٹھیک ہے، اگر آپ مجھ سے کہیں کہ کیا آپ کسی ایسے سیارے کا تصور کرسکتے ہیں جہاں لوگ وقتا فوقتا گوشت کھاتے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ یہ ہمارے سیارے سے جس پر ہم رہ رہے ہیں، بہت ہی مختلف ہوتا اور ہم ان ماحولیاتی مسائل سے بھی دو چار نہیں ہوتے جن سے ہم لوگ ابھی گزر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ لوگ جو کھا رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کو معلوم ہے۔ لوگوں کی پلیٹ کا دو تہائی حصہ گوشت سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور وہ دن میں کم از کم دو بارگوشت کھاتے ہیں۔

        میں اس سے اپنی بات کا آغاز کروں گا کہ میری ملاقات کبھی بھی غذائیت کے کسی ایسے ماہر سے نہیں ہوئی جو اس بیان سے اتفاق کرتا ہو کہ ہمیں گوشت کھانے کی ضرورت ہے۔ کیک جیسے بہت سے دیگر کھانوں کی طرح گوشت بالکل صحتمند ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسا بھی ہے کہ ہم اسے بہت زیادہ نہیں کھانا چاہتے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اس کا تعلق دل کی بیماری، کینسر اور صحت سے متعلق ہر قسم کے دیگرمسائل سے ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ جب لوگ ایسا کہتے ہیں تو ان مشاہدوں کے پیچھے ایک قسم کی سختی یا ایک قسم کی ضد ہوتی ہے۔

شکاریوں نے ایسی بہت ساری ناخوشگوارچیزیں کی ہیں جو اب ہم لوگ نہیں کرتے۔ شکاری اور شکار جمع کرنے والے چشمے نہیں پہنتے۔ توکیا اب یہ میرے چشمہ پہننے کے خلاف ایک بحث ہے؟ بالکل نہیں۔ میرے خیال میں یہ تسلیم کرنے کے قابل ہے کہ بیشتر انسانوں نے بیشتر انسانی تاریخ میں گوشت کھایا ہے اور یہ ایک اہم حقیقت ہے۔ میں اسے خارج از امکان قرار نہیں دے رہا ہوں۔ مستقبل کے بارے میں میرا تصور حقیقت میں مستقبل سے متعلق نہیں ہے۔ یہ قدامت پسندی سے متعلق ہے۔ یہ ایک ایسی زراعت کی جانب واپس جارہا ہے جس کی  ہمارے دادا دادی اور نانا نانی نے مشق کی تھی اورکھانے کی ایک ایسی قسم کی جانب یہ واپس لوٹ رہا ہے جسے ہمارے دادا دادی اور نانا نانی کھایا کرتے تھے۔ میں گوشت نہیں کھانا چاہتا اور میں گوشت کھا ؤں گا بھی نہیں۔ اس کے باوجود میں اتنا صحتمند ہوں جیسا کہ کوئی اور ہے۔ لیکن میری دلچسپی کسی پربھی میرے مخصوص انتخاب کے نافذ کرنے (تھوپنے) میں نہیں ہے۔ میری دلچسپی غیرمتنازعہ اور غیر واضح سائنس کو ہر ایک کے ساتھ مشترک کرنے میں ہے۔

        اور جب آب و ہوا کی تبدیلی کی بات آتی ہے تو سائنس ممکنہ طورپر زیادہ واضح نہیں ہوسکتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی پر بین حکومتی پینل، جو اقوام متحدہ کے لیے آب و ہوا کے سائنس کے گولڈ اسٹینڈرڈ کی طرح ہے، نے کہا ہے کہ ہم پیرس کے آب و ہوا کے معاہدوں کے اہداف کو پورا کرنے کی امید اس وقت تک نہیں رکھتے جب تک کہ ہم اپنے کھانے کو تبدیل نہ کریں، خاص طورسے جانوروں کے معاملے میں۔

        لہٰذا جب آپ نے ہر وقت کچھ گوشت کھانے کے بارے میں کہا توہوسکتا ہے کہ یہ اس لحاظ سے صحیح ہو جہاں ہم سب کو اس بات پر اتفاق کرنے کے قابل ہونا چاہیے کہ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر ہم ہر وقت گوشت کھاتے ر ہیں تو ہمارا پائیدار کھانے کا نظام تشکیل نہیں ہو پائے گا۔ لیکن اس کے بعد احترام کے ساتھ اختلاف کی صورت حال کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے