رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ اس مضمون میں جانتے ہیں کہ امریکی مسلمان کس طرح ماہِ مبارک کا اہتمام کرتے ہیں۔
March 2023
جیسا کہ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے امریکی گھرانوں کے افراد گھر پر افطار کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مساجد اور ریستورانوں میں بھی افطاریوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔(©ڈریزین زیگیک/شٹراسٹاک ڈاٹ کام)
چوں کہ امریکی مسلمانوں کے آباواجداد کا تعلق دنیا کے مختلف کونوں سے تھا اسی لیے امریکہ میں رمضان کی روایات بھی اپنے اندر تنوع لیے ہوئے ہیں۔ تارکین وطن امریکہ میں اپنے پہلے رمضان کو بالعموم ایک ایسے وقت کے طور پر یاد کرتے ہیں جب انہوں نے نئے رواج سیکھے۔
شکاگو میں پیدا ہو نے والے رضوان جاکا واشنگٹن کے علاقے کی’ آل ڈیلس ایریا مسلم سوسائٹی‘کے رکن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے نماز کے بہت سے ساتھی یا تو خود تارکین وطن ہیں یا اُن کی طرح اُن کا تعلق بھی بین الاقوامی ورثے سے جڑا ہوا ہے۔ جاکا کے بزرگوں کا تعلق بھارت، پاکستان اور میکسیکو سے ہے۔ لہذا اُن کی سوسائٹی افطاری میں باری باری جنوبی ایشیا، مشرق وسطی، افریقہ، امریکہ اور دیگر علاقوں کے کھانے پیش کرتی ہے۔
دنیا کے مسلمانوں کی طرح ۲۲مارچ کو جاکا ایک ماہ کے روزوں، عبادات، قرآن پاک کی تلاوت، خیرات دینے، نیک اعمال کرنے اور اکٹھے مل کر افطاری کرنے کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ جاکا کہتے ہیں کہ امریکہ میں ماہ رمضان معاشرے میں بھائی بندی اور روحانی ترقی کا وقت بھی ہوتا ہے۔
سمیرا جاوید ۲۹ برس کی عمرمیں پاکستان سے امریکہ آئیں۔ وہ اب بھی امریکہ میں اپنے پہلے رمضان کو یاد کرتی ہیں۔ یہ اُس طریقے سے” بہت مختلف تھا جس طریقے سے ہم پاکستان میں رمضان کے روزے رکھا کرتے تھے۔“وہ بتاتی ہیں کہ وہاں اُن کے خاندان کے لوگ رمضان کے زیادہ تر روزے گھر پر ہی رکھا کرتے تھے۔ جبکہ ریاست اوہائیوو کے شہر سنسناٹی کے گریٹر اسلامک سینٹر میں رمضان کی سرگرمیوں کا مرکز مسجد ہے اور وہ اب اس کی عادی ہو چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’یہ ایک امریکی انفرادیت ہے۔“
سمیرا جاوید امریکہ میں ایک مشکل کا ذکر کرتی ہیں۔ اور وہ مشکل زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی کے لیے وقت میں تبدیلی ہے۔ چونکہ امریکی ہر موسم بہار میں گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کر دیتے ہیں تاکہ شام کے وقت اندھیرا دیر سے پھیلے۔ وہ کہتی ہیں ’’رمضان کے روزے آٹھ گھنٹے سے لے کر ۱۸ گھنٹے تک لمبے ہو سکتے ہیں۔ مگر اس کا انحصار سال اور اُس مقام پر ہے جہاں صائم رہتے ہیں۔امریکہ میں سمیرا جاوید کے ابتدائی چند ایک رمضان سردیوں میں آئے جب سورج لگ بھگ ۵بجے شام کوغروب ہو جاتا تھا۔ اس کے برعکس گرمیوں میں وقت میں تبدیلی کی وجہ سے افطاری کا وقت شام 9۹بجے تک چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے روزہ رکھنا زیادہ مشکل ہو جاتا ۔
امام رشید بتاتے ہیں کہ ماہ رمضان میں مقامی مسلم کمیونٹی کے لوگ روزانہ شام کو جمع ہوتے تھے۔ اُن کے گھر کے لوگ اِن کے ساتھ ’’اکٹھے نماز پڑھتے تھے، ایک ساتھ افطار کرتے تھے، لوگوں سے ملتے جلتے تھے اور اس مبارک مہینے کی ہر رات نئے دوست بناتے تھے۔‘‘اختتام ہفتہ پر مسجد کے لوگ نماز کے بعد کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرتے تھے جن میں مرد اور خواتین دونوں شریک ہوتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں ’’یہ سب کچھ میرے لیے نیا تھا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ بھارت میں مساجد میں صرف مرد آتے ہیں اور مساجد کو صرف ’’نماز پڑھنے کی جگہ‘‘سمجھا جاتا ہے۔
انہیں یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ امریکہ میں مساجد بالعموم سماجی، مذہبی بلکہ یہاں تک کہ کھیلوں کی سرگرمیوں کے مراکز ہوتی ہیں۔
اب امام رشید اپنی مسجد میں بین المذاہب افطاریوں کا بندوبست کرتے ہیں جن میں مقامی گرجا گھروں اور کنیسوں کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میرے نزدیک یہ افطار کی تقریبات رمضان کی خاص چیزیں ہیں کیونکہ یہ مختلف کمیونٹیوں کے درمیان پکی دوستیاں پیدا کرتی ہیں۔‘‘
طارق رشید نوجوانی میں بھارت سے امریکہ آئے۔ انہیں امریکیوں کے پورے خاندان کے لیے رمضان کی سرگرمیوں کا اہتمام کرنے کا طریقہ اچھا لگتا ہے۔ آج کل وہ ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں اسلامک سنٹر آف اورلینڈو کی مسجد کے امام ہیں۔ وہ امریکہ میں اپنے پہلے رمضان کو ایک ’’بہت ہی خاص‘‘ رمضان کے طور پر یا د کرتے ہیں۔
تشکر برائے متن و تصاویر: شیئر امیریکہ
تبصرہ