’’بلیک پینتھر: وکانڈا فارایور‘‘ میں اپنے فن کا جلوہ دکھانے کے لیے بھی معروف افریقی۔ امریکی فنکار نکولس اسمتھ کے ساتھ ان کے فن اور ماورائے فن سرگرمی پر تبادلہ خیال۔
April 2024
شہرہ آفاق افریقی۔امریکی فنکار نکولس اسمتھ ’بلیک ہسٹری منتھ‘ سے متعلق ایک تقریب کے دوران نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں حاضرین اور شائقین سے تفاعل کرتے ہوئے۔(تصویر بشکریہ راکیش ملہوترا)
افریقی نژاد امریکی فنکار نکولس اسمتھ نے اپنے کریئر کا آغاز والٹ ڈزنی میں انٹرن شپ کے ساتھ کیا جہاں انہوں نے تھیم پارکس ڈیزائن کیے۔پھر اسمتھ نے تاریخ اور سماجی انصاف کے موضوعات کی تلاش کرنے والے موثرفن پاروں کو تیار کرنے کی خاطر مختلف تنظیموں کے ساتھ کام کیا ۔ فلم ’’بلیک پینتھر: وکانڈا فارایور‘‘ کا تصور پیش کرنے والے کے طور پر نکولس اسمتھ کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی جنہوں نے ۲۰۲۳ء میں متعدد اکیڈمی ایوارڈ جیتے جن میں’ ویژول افیکٹس‘ اور’ کاسٹیوم ڈیزائن‘ سے متعلق اعزازات بھی شامل ہیں۔
اسمتھ نے ورجینیا میں تاریخی سیاہ فام یونیورسٹی، ہیمپٹن یونیورسٹی میں فن تعمیر کی تعلیم حاصل کی ۔ تعلیم کے دوران انہیں والٹ ڈزنی میں انٹرن شپ کرنے کا موقع ملا جو ’زندگی بدلنے ‘ والا ثابت ہوا۔اسی دوران اسمتھ نے اپنے فن اور اس سے متعلق سرگرمیوں کے ساتھ ایک ’آرٹیوسٹ‘ کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ یعنی انہوں نے اپنے فن اور فعالیت کو یکجا کیا اور ’آرٹیوِسٹ‘ کہلانا پسند کیا۔ وہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یہ واقعی دنیا کی مشکلات کو دیکھنے جیسی بات ہے اوران چیزوں کو دیکھنے کی بات ہے جو صحیح طریقے سے کام نہ کر رہی ہوں۔ یہ معلوم کرنے کی بھی بات ہے کہ میں کس طرح اس میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہوں اور لوگوں کو آرٹ کے ذریعے مثبت تبدیلی لانے کی ترغیب دے سکتا ہوں۔‘‘
اسمتھ نے حال ہی میں فروری میں بلیک ہسٹری منتھ کے موقع پر نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں منعقد ایک تقریب میں شرکت کی جہاں انہوں نے سماجی تبدیلی کواپنے فن کے ذریعہ فروغ دینے کی خاطر اپنی محنت اور لگن کے بارے میں بات چیت کی۔
پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔
آپ فن کا استعمال کرکے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کیسے کرتے ہیں؟
میں ’آرٹیوزم ‘کے بارے میں لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور انہیں مسئلہ یا حل کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہوں اور دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے اسے موجودہ واقعات کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہوں۔
مثال کے طور پر اگر کہیں بڑے پیمانے پر گولی باری کا سانحہ پیش آتاہے جسے ہر کوئی خبروں میں دیکھتا ہے۔ یہ دل دہلا دینے والا ہو سکتا ہے۔ اس سانحہ کے پس منظر میں میں فوری طور پر اس سے متعلق آرٹ تخلیق کرنا چاہتا ہوں جو عام طور پر متاثرین کو خراج عقیدت ہوتا ہے۔
جب اس طرح کے آرٹ کی تخلیق ہوتی ہے تو لازماً یہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے اور گفتگو کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ بات ان سوالوں سے جڑی ہے جو ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں ، جیسے کہ ہم اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد کے لیے کیا کررہے ہیں یا ہم تیز رفتاری کے ساتھ صورت حال کو تبدیل کرنے میں کس طرح تعاون کرسکتے ہیں ۔ جب میں والٹ ڈزنی میں تھا تو ایک اہم چیز جس نے میرے سفر میں واقعی مجھے متاثر کیا اور میری مدد کی وہ ڈزنی کے ان معروف شخصیتوں کے درمیان اس فن کے تئیں لگن اور توجہ تھی جن کے ساتھ میں کام کر رہا تھا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ والٹ ڈزنی میں آپ نے جو وقت گزارا اس نے آپ کے فن اور آپ کی معاشرتی سرگرمی کو کس طرح متاثر کیا۔
میں نے اپنے پیشہ ورانہ کریئر کا آغازنئی سوچ دینے والے، امیجنیئر ( والٹ ڈزنی کی طرف سے پیش کی گئی تخلیقی انجینئرنگ کے لیے ایک اصطلاح)کے طور پر کیا۔ میں نے ۱۱برس تک دنیا بھر میں تھیم پارکوں کو ڈیزائن کیا۔ اس کے علاوہ میں جب بھی گھرواپس آتا تو خبر، سیاست، تفریح وغیرہ کے مسائل کے رد عمل میں اپنے ارد گرد کی دنیا سے متاثر ہو کرفن پاروں کی تخلیق کرتا۔ میں نے ہر اتوار کو ایک آرٹ کی تخلیق کرنی شروع کی اور اسے میں نے ’سنڈے اسکیچ سیریز ‘ کا نام دیا۔
میں بتانا چاہتا ہوں کہ والٹ ڈزنی میں کام کرنا انتہائی متاثر کن تھا جس سے مجھے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو نکھارنے میں مدد ملی۔
کیا فعالیت کسی فنکار کو سامعین کی بڑی تعداد تک پہنچنے یا انہیں محدود رکھنے میں مدد کرتی ہے؟
میرے خیال میں فعالیت بہت اہم ہے اور یہ کسی فنکار کو سامعین کی بڑی تعداد تک پہنچنے میں مدد کرتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ محدود رکھنے کا باعث ہے کیونکہ فعالیت دراصل دنیا کے کچھ سب سے بڑے مسائل کو حل کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ یہ آپ کو عالمی سامعین تک پہنچنے میں مدد کرے گی کیونکہ سوشل میڈیا ہم سب کو جوڑے رکھنے کا کام انجام دے رہا ہے۔
پسماندہ طبقات کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے میں آرٹ کس طرح مدد کرسکتا ہے؟
میرے خیال میں آرٹ واقعی پسماندہ طبقات کے مسائل کو اجاگر کرنے میں مدد کرسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی تصاویر کا بیشتر حصہ اسی موضوع پر مرکوز کرتا ہوں۔ میں نے ’روزا‘ کے نام سے ایک تصویر بنائی ہے جس میں ماں روزا کواپنے دو بچوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے جو صرف ایک بہتر زندگی کی تلاش میں ہے۔ اس تصویر میں روزا براہ راست ناظرین کی طرف دیکھ رہی ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ لوگ اس کے چہرے کو دیکھیں اور اس کی انسانیت پر نظر ڈالیں۔دنیا میں ایسے اقلیتی طبقات ہیں جنہیں روکا جاتا ہے اور ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایک بار جب لوگ مسئلہ کو اور اس کے حجم کا مشاہدہ شروع کرتے ہیں تو اس میں کمی لانے کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگتے ہیں۔
برائے مہربانی ہمیں اپنی فنکارانہ تحریکات کے بارے میں بتائیں۔
میں اپنے بچپن سے ہی کلاسیکی آئل پینٹرس سے متاثر رہا ہوں۔جس گھر میں میری پرورش ہوئی، اس گھر کی دیواروں پر تصویرں آویزاں تھیں، خاص طور پر نارمن راک ویل کی بنی تصویریں۔ راک ویل کی بنائی ایک تصویر تھی جس کا نام تھا’وہ مسئلہ ہم سب جس کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں ۔‘ اس میں نوجوان روبی برجز کو دکھایا گیا ہے جو سرکاری اسکولوں میں نسلی امتیاز کو ختم کرنے والی پہلی سیاہ فام بچی تھا۔
اور دیکھئے کہ بڑے ہوکر میں نے مس روبی کی ’پکچر بُک‘ کی وضاحت کی، جو ان کی تازہ ترین تصویری کتابوں میں سے ایک ہے اورجس کا نام ’آئی ایم روبی برجز‘ہے۔
میں راک ویل جیسے آئل پینٹرس سے بہت متاثر ہوں کیونکہ وہ ایک بھی ’آرٹیوسٹ‘ بھی تھے۔ انہوں نے دنیا کی ’مشکلات‘کے بارے میں بات کی اور تصویر بھی بنائی۔ انہوں نے پینٹنگ اسٹائل کی تخلیق بھی کی۔
میں قادرنیلسن اور کیہندے ولی جیسے بہت سے فنکاروں کے بارے میں پڑھتا ہوں۔ میں نوجوان فنکاروں کی بھی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ عظیم لوگوں کی تقلید کریں یا مطالعہ کرنے کے لیے فنکاروں کو تلاش کریں۔
براہ کرم ہمیں نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں سامعین کے ساتھ بات چیت کے اپنے تجربے کے بارے میں بتائیں۔
یہاں آکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اپنی پکچر بُک’دی آرٹیوسٹ‘ اور اپنے’ آرٹیوزم ‘کے بارے میں بہت سارے طلبہ سے بات کی۔ مجھے بہت سے نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کا موقع ملا۔ میں نے انہیں آرٹ کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ تصاویر بنانے میں مستقل مزاجی سے کیسے کام لیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر آرٹ کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض دیگر چیزیں بھی میں نے انہیں بتائیں۔ ہر کوئی میرے نقطہ نظر کو جاننے کے لیے بے تاب تھا۔تفاعل کی یہ شکل یقینی طور پر خوبصورت تھی۔
اسپَین نیوزلیٹر اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ