ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنا

فل برائٹ۔نہروفیلو ڈاکٹر سونجا کلِنسکی ایسی تجزیاتی صلاحیت تعمیر کرنے میں مصروف ہیں جس سے مختلف النوع ماحولیاتی عمل انجام پانے کے ساتھ ساتھ انسانی ترقیاتی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہو سکے گی۔

اسٹیو فاکس

March 2021

ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنا

ڈاکٹر سونجا کلنسکی (بائیں) نے پروفیسر امبوج ساگر (دائیں) کے ساتھ مل کر ایک ایسے تعلیمی جریدے کا ایک اکیڈمک جنرل شروع کیا جس میں آب و ہوا اور ترقیاتی پالیسی کے لیے صلاحیت کی تشکیل پر توجہ دی گئی ہے۔ تصاویر بشکریہ ڈاکٹر کلِنسکی (بائیں) اور پروفیسر ساگر (دائیں)

اس وقت ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلہ سے نبردآزما ہیں۔لہٰذا دنیا بھر کے پالیسی سازوں کو تجزیاتی صلاحیت کی ضرورت ہے تاکہ ان ترجیحات کی نشان دہی ہو سکے جو عالمی حدت اور موسمی حشر سامانیوں کے خلاف جنگ میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ایسے حل تلاش کیے جائیں تاکہ مختلف ممالک میں لوگوں کی بہبود بھی ممکن ہو سکے۔محققین کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پالیسی سازوں کو متعلقہ اور بر وقت معلومات فراہم کریں تاکہ وہ با خبر فیصلے کر سکیں، بالفاظ دیگر وسیع معنوں میں صلاحیت کی تعمیر کرسکیں۔

اریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے اسکول آف سسٹین ابیلیٹی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سونجا کلِنسکی، جو ماحولیاتی تبدیلی پالیسی تحقیق کے میدان کی ایک سرکردہ شخصیت ہیں، کہتی ہیں ”صلاحیت کی تعمیرسے ہماری مرادایسی با مقصد کوششوں سے ہے جو ماحولیاتی عمل کے لیے ضروری امور کی نشان دہی کرنے کے ساتھ انسانی ترقیاتی ضرورتوں کی تکمیل بھی کر سکیں۔“

آئی آئی ٹی دہلی میں ۲۰۱۹۔۲۰۱۸ء فل برائٹ۔ نہرو اکیڈمک اینڈ پروفیشنل ایکسی لینس ایوارڈ اسکالر ڈاکٹر کلِنسکی آئی آئی ٹی ڈی کے اسکول آف پبلک پالیسی کے بانی ڈائریکٹر امبوج ساگر اور انسٹی ٹیوٹ کے پالیسی اسٹڈیز کے پروفیسر وپولا اور مہیش چتر ویدی کے ساتھ تعاون کررہی ہیں۔اس تعاون کا مقصد علمی رسالہ کا ایک خصوصی شمارہ شائع کرنا جس کی توجہ کا مرکز ماحولیات اور ترقیاتی پالیسی کے لیے صلاحیت تعمیر کرنا ہے۔اس پروجیکٹ میں دنیا بھر کے مصنفین کی ٹیمیں شامل ہوں گی اور اس کی توجہ کا خاص مرکز صلاحیت کی تعمیر کے لیے مواقع اور چیلنجز ہوگا۔ڈاکٹرکلِنسکی بتاتی ہیں ”امید کرتی ہوں کہ یہ ایک وسیع تعاون اور عالمی مکالمہ کی شروعات ثابت ہوگی جس سے صلاحیت کی تعمیر اور تمام ممالک کے درمیان اس امر پر اتحاد ہوگا جو وہ اس جگہ میں دیکھنے کی خواہا ں ہیں۔“

ایک بہت بڑا چیلنج ماحولیاتی انصاف ہے، جو کافی طویل عرصہ سے ڈاکٹر کلِنسکی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ان کی نظر میں اس کاصلاحیت کی تعمیر سے بہت گہرا تعلق ہے۔وہ وضاحت کرتی ہیں کہ صلاحیتی تعمیر کے ماحولیاتی انصاف سے تعلق کی وجہ یہ ہے کہ وقت کی ضرورت ہے کہ وہ ممالک جن کے پاس زیادہ مالی وسائل اور ٹیکنالوجی ہیں اور وہ ممالک جن کے پاس متعلقہ علم ہے وہ آپس میں متحد ہوں تاکہ ترقی اور ماحولیاتی عمل کے اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔

ماحولیاتی انصاف باہمی طور پر وابستہ کئی حقائق کو تسلیم کرتا ہے۔ مثال کے طور پرسب سے زیادہ ماحولیات کے لیے مضر گیسوں کے اخراج کے لیے ذمہ دار ممالک، جن سے ماحولیاتی تبدیلی واقع ہوتی ہے مثلاً ترقی یافتہ ممالک اور گلوبل وارمنگ اور موسمی تبدیلی کے سب سے زیادہ شکار ممالک (مثلاً ترقی پذیر ممالک)کے درمیان عدم مساوات۔اس طرح کا عدم مساوات پالیسی سازوں کے سامنے فیصلہ سازی اور جواب دہی کو لیکرے بڑے پیچیدہ مسائل کھڑا کردیتا ہے۔لہٰذا یہیں سے صلاحیت کی تعمیر میں اشتراک کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔

پروفیسر ساگر کہتے ہیں ”صلاحیت کی تعمیر پالیسی سازوں کی راہنمائی کرتی ہے کہ کہاں اپنے وقت اور وسائل کو لگائیں تاکہ ماحولیات کے مسئلہ کی مختلف جہات پر عمل در آمد ممکن ہو سکے۔در اصل اس سے پالیسی سازوں کو چیلنجوں کی پیچیدگی کی تفہیم میں مدد ملتی ہے: ہمیں کیا نتائج درکار ہیں، اور ان کو کیسے حاصل کرنا ہے؟ ایک بار جب ان کے پاس یہ معلومات مہیا ہوجائیں، تو امید کی جاسکتی ہے وہ بہتر فیصلہ کرنے کے قابل ہوں۔“

بعض ممالک بعض کے مقابلہ میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے زیادہ اہل ہیں۔ڈاکٹر کلِنسکی صراحت کرتی ہیں ”ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں کہ جن کے پاس سب سے کم وسائل ہیں اور جو ماحولیاتی تبدیلی کے لیے سب سے کم ذمہ دارہیں۔ وہی ماحولیات سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے مالیات، ٹیکنالوجی اور صلاحیتی تعمیر کی حیثیت تین اہم اجزاء کی ہے۔ اگر آپ کے پاس یہ تینوں نہیں ہیں تو ماحولیاتی عدم انصاف پر اثر انداز ہونابہت مشکل کام ہے۔“

ڈاکٹر کلِنسکی اور پروفیسر ساگر دونوں ہی متفق ہیں کہ انسانوں اور ملکوں کے درمیان تعاون ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ڈاکٹر کلِنسکی انکشاف کرتی ہیں ”امبوج اور میرے درمیان تعاون ایسے خیالات کو جنم دے رہا ہے جو ہم اکیلے اپنے اپنے طور پر تصوربھی نہیں کر سکتے تھے۔اس پورے عمل کا لب لباب یہ ہے کہ ہم بالآخر یہ سمجھ پائیں کہ ماحولیاتی تبدیلی پر قابو کیسے پایا جائے۔“

پروفیسر ساگر مزید کہتے ہیں ”جب مختلف ممالک سے لوگ ایک ساتھ آئیں اور مختلف مسائل پر گفتگو کرنا شروع کریں کہ ان مسائل سے کیسے نمٹا جائے، تو وہ ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ اس سے ان میں آپس میں ایک اعتماد کی فضا بھی پیدا ہوتی ہے۔ ایک ساتھ صلاحیت کی تعمیر سے آپس میں اعتماد اور اتحاد پیدا ہوتا ہے، لہٰذا یہ ایک طرح کا نیا سلسلہ بنا تا ہے۔“

ڈاکٹر کلِنسکی تصریح کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ جو اقدام ہم آج کریں گے اس کے اثرات ہماری حیات سے بعید بھی محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے وہ ہمارے فیصلوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔ جو کار ہم نے صبح چلائی اس سے پیدا ہوئی آلوگی کا اثر ہمارے بچوں کے بچوں پر پڑے گا۔“

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِنچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ
نگار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے