بچوں کے متنوع ادب کی وکالت کرنے والی ہند۔ امریکی مصنفہ ڈاکٹر سیانتانی داس گپتا نے کولکاتہ کے امیریکن سینٹر میں ایک ورکشاپ میں نوجوان قلمکاروں کو متاثر کیا۔
March 2024
ڈاکٹر سیانتانی داس گپتا بچوں کی ڈاکٹر ہیں۔ وہ بچوں کا ادب تخلیق کرتی ہیں ۔ انہوں نے کولکاتہ میں واقع امیریکن سینٹر کے ذریعہ منعقد ایک ورچوئل رائٹنگ ورکشاپ میں شرکت کی۔(تصویر از روڈوڈاینڈرائٹس/ بشکریہ وکی پیڈیا)
ڈاکٹر سیانتانی داس گپتا تربیت کے لحاظ سے ماہر اطفال ہیں۔ وہ ایک ایسی عالمہ ہیں جو ’بیانیہ ادویہ‘ کی تعلیم دیتی ہیں اور بچوں کا ادب تصنیف کرتی ہیں۔ تاہم وہ ان تمام چیزوں کا مصدر ایک ہی چیز کو مانتی ہیں اور وہ ہے نوجوانوں کی دیکھ بھال ، خاص طور پر نوجوانوں کی صحت کی نگہداشت۔ وہ کہتی ہیں ’’ جب میں بطور ماہر اطفال متحرک تھی تو میں ان کی جسمانی صحت کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ لیکن ایک عالمہ کے طور پر میں اپنے طلبہ کی فکری صحت کی دیکھ بھال بھی کرتی ہوں اور بچوں کی مصنفہ کے طور پر میں نوجوانوں کی تخیلی صحت کا بھی خیال رکھتی ہوں لیکن ان تمام اقسام کی صحت بھی آپس میں منسلک ہے۔ جب میں بطور ڈاکٹر فعال تھی تو میں کتابوں پر بحث کرنے اور پڑھنے کا مشورہ دیا کرتی تھی کیوں کہ میرے خیال میں کہانیاں اچھی دوا کاکام کرتی ہیں۔‘‘
سنہ ۲۰۲۲ء کے اواخر میں عالمی تعلیمی ہفتہ کی تقریبات میں ، جن کا انعقاد کولکاتہ کے امیریکن سینٹر میں ایسوسی ایشن فار چلڈرینس لٹریچر اِن ساؤتھ ایشیا (اے سی ایل آئی ایس اے)کے اشتراک سے ہوا، نوجوان قلمکاروں کے لیے ایک ورکشاپ منعقد کیا گیا تھاجس کا عنوان تھا’’ تحریر ذاتی ہے: نوجوان بالغ ادب میں بیانیے۔‘‘
تحریک اور رہنمائی کے یک روزہ ورکشاپ میں پورے مغربی بنگال کے نوجوان مصنفین یکجا ہوئے۔ اس میں ڈاکٹر داس گپتا کے ساتھ پہلے سے ریکارڈ شدہ ایک خصوصی سیشن پیش کیا گیا، جس میں طلبہ نے ان کی اپنی تحریروں سے پروان چڑھے ان کے تخلیقی عمل اور ذاتی تعلق سے آگہی حاصل کی۔
پیش ہیں ایک انٹرویو کے اقتباسات۔
بچوں کے لیے لکھنے پر آپ کو کس چیز نے آمادہ کیا؟
کولکاتہ کے تارکین وطن کی بیٹی کے طور پر امریکہ میں پرورش پاتے ہوئے، میں نے کتابوں، فلموں اور دیگر ذرائع ابلاغ میں کبھی بھی اپنے جیسا دلچسپی لینے والا کسی کو نہیں پایا۔ میں ایک بہت بڑا کتابی کیڑا تھی اور بہت سارے مصنفین کے کاموں کو پسند کرتی تھی ۔میڈلین ایل اینگل سے لے کر سی ایس لیوس اور جے آر آر ٹولکین تک۔لیکن ان جیسی کسی چیز کو خلق کرنے سے قاصر رہنے نے مجھے ایک گہرا پیغام دیا۔ میں نے فرض کرلیا کہ اگر میرے اطراف موجود کہانیوں میں میرے جیسا نظر آنے والا کوئی نہ ہو تو شاید مجھ جیسا کوئی ہیرو یا مرکزی کردار بننے کا مستحق نہیں، حتیٰ کہ میری اپنی زندگی کا بھی۔
لہذا، میں واپس اپنی دادی کی ان بنگالی لوک کہانیوں تک پہنچ گئی جنھیں میں نے کولکاتہ میں اپنی گرمیوں کی طویل چھٹیوں کے دوران سنا تھا۔’ٹھاکرمار جھولی‘جو بھوتوں اور بدروحوں، اڑنے والے گھوڑوں، برے ناگ راجاؤں کی کہانیاں، ان ہی کہانیوں سے تحریک پاتے ہوئے میں نے اپنی سیریز تیار کی۔
میری پہلی مثلث’کرن مالا اینڈ دی کنگڈم بیونڈ‘ ، اور خاص طور پر بچوں کے لیے میری پہلی کتاب’ سر پینٹس سیکریٹس‘ جس کی تحریک مجھے ٹونی موریسن کی نصیحت سے ملی یعنی ’ اگر آپ کوئی ایسی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں جو اب تک لکھی نہیں گئی تو آپ کو ایسی کوئی کتاب ضرور لکھنی چاہیے ‘ سے متاثر تھی۔ تو اس طرح سے ، میں نے اپنے اندر کے بچے کے لیے، اپنے بچوں کے لیے، اور حقیقت میں، ہر طرح کے پس منظر کے تمام بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا۔
میں کتابوں میں متنوع نمائندگی کی وکیل بھی بن گئی۔ میں نے غیر منافع بخش تنظیم ’وی نیڈ ڈائورس بُک‘ اور، حال ہی میں’آتھرس اگینسٹ بُک بَینس‘کے ساتھ کام کیا۔
آپ کا کام اکثر ثقافتی شناخت کے موضوع پر ہوتا ہے۔ یہ کیوں اہم ہے اور آپ اسے اپنے بیانیے میں کیسےشامل کرتی ہیں؟
میری پہلی سیریز نیو جرسی سے تعلق رکھنے والی ایک ۱۲ سالہ ہندوستانی تارک وطن لڑکی کے بارے میں ہے جو سوچتی ہے کہ اس کے والدین کی تمام کہانیاں اس کے بارے میں واقعتاً ایک خلاباز شیطان کو مارنے والی شہزادی ہونے کی کہانیاں ہیں، جب تک کہ وہ حقیقی نہ ہو جائیں، اور اپنی شناخت کے بارے میں سچائی کو جاننے کے لیے اسے ضرور کہکشاؤں کا سفر کرنا چاہیے، اور ایسا کرتے ہوئے اسے اپنی سپر پاورز کو پانا چاہیے۔ تارک وطن بچے کے تجربے کے لیے یہ بات ایک باریک چھپا ہوا استعارہ ہے۔
ہمارے والدین کی کہانیاں روڈ میپ کی طرح ہیں جو ہمیں ہماری طاقت اور ہماری اصل کی دور دراز زمینوں سے جوڑتی ہیں، لیکن یہ تو ہم خود اس سفر کو شروع کرکے ہی اپنی پوری شناخت کو جان سکتے ہیں اور اپنی حقیقی طاقت کو تلاش کر سکتے ہیں۔
اپنی تمام درمیانی درجے کی سیریز میں درحقیقت میں نے بہت ساری خلائی تحقیق اور ’اسٹرنگ تھیوری‘ بنائی ہے۔ یہ تصور کہ متوازی کائناتیں ایک دوسرے کے بالکل قریب موجود ہیں، لیکن ایک دنیا دوسری کے بارے میں نہیں جانتی۔ میرے نزدیک یہ تارکین وطن کے تجربے کا اظہار کرنے کا ایک بہترین طریقہ معلوم ہوتا تھا ۔ہم تارکین وطن خاندان اصل میں مختلف کہکشاؤں کے درمیان سفر کرنے والے اور خلا ئی سفر کے متلاشی ہیں جو اکثر ہمیں اپنے دور دراز کے خاندانوں سے جوڑنے کے لیے ٹیکنالوجی کے میدان میں سب سے آگے ہوتے ہیں، اور متعدد شناختوں اور بیک وقت کائناتوں میں بھی موجود رہنے کے قابل ہوتے ہیں۔
ان بیانیوں کے انتخاب اصل میں جنوبی ایشیائی تارکین وطن طبقات بلکہ یوں کہیں کہ تمام تارکین وطن طبقات اور درحقیقت ہر اس شخص کی عزت افزائی کے طریقے ہیں جس نے خود کو الگ تھلگ اور بیگانہ محسوس کیا ہو۔ لیکن درحقیقت ایک اچھے کہانی کار کا کام اپنی کہانیوں میں موضوعات کو بُننا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ کسی بھی قاری کے لیے کہانی میں داخل ہونے اور اس کے اندر کردار تلاش کرنے کی گنجائش چھوڑنا ہے۔
آپ کا کولکاتہ میں واقع امیریکن سینٹر کے زیر اہتمام منعقدہ ’لکھنا ذاتی ہے‘ نامی ورکشاپ کے دوران ایک خصوصی جلسے میں شرکت کا تجربہ کیسا رہا؟
یہ حیران کن تھا۔میں محسوس کرتی ہوں کہ سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کا ایک بہت بڑا فائدہ لوگوں کے درمیان فاصلے کو کم کرنے کی صلاحیت ہے۔ ورچوئل ورکشاپ کے ذریعہ میں کولکاتہ میں بعض تخلیقی اور تنقیدی مفکرین کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئی اور تحریری لفظ کی نمائندگی، تخلیقی صلاحیت، فن اور سائنس کے بارے میں ایک ساتھ بات کر سکی۔میں نے ایسے دو ناولوں کے بارے میں بات کی جو نوجوان بالغ افراد کے لیے ہیں ۔ اور یہ دونوں عصری رومانی طربیہ ہیں جو جین آسٹِن سے متاثر اور دیسی مرکزی کرداروں پر مرکوز ہیں۔
میرا ناول ’ ڈبیٹنگ ڈارسی‘ اصل میں جین کی تخلیق ’ پرائڈ اینڈ پریجوڈِس ‘ سے تحریک یافتہ ہے جو ہائی اسکول کی تقریر اور مباحثے کی ترتیب میں تیار کی گئی ۔جب کہ دوسرا ناول ’ روز ووڈ: اے مِڈ سمر میٹ کیوٹ‘ جین کی ایک اور معروف تخلیق ’ سینس اینڈ سینسبلیٹی‘کا از سر نو بیان ہے۔ میں ہندوستان میں تخلیقی طبقات کے ساتھ مزید تعاون کرنا پسند کروں گی ، آن لائن اور شاید ذاتی طور پر بھی۔
آپ بچوں کا مصنف بننے کے خواہشمند افراد ، خاص کر متنوع پس منظر والے اس صنعت میں قدم رکھنے کی خواہش رکھنے والوں، کو کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
جہاں تک ہو سکے زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔ جو آپ کے کام کا ہو اس پر لکھیں اور اپنے آپ پر، اپنی کہانی اور اپنے عمل پر یقین رکھیں۔ ایک کمیونٹی تلاش کریں۔ سرپرست تلاش کریں۔ دوسروں کی رہنمائی کریں۔ بہادر اور عاجز بنیں، اپنے ہنر کو سیکھنے اور بہتر بنانے کے لیے تیار رہیں۔ صبر کریں، لیکن ہمت نہ ہاریں۔
کیا آپ اپنےتصنیفی سفر کے آئندہ منصوبوں اور مستقبل کے رخ کے بارے میں کچھ بتا سکتی ہیں؟
میں سر دست ایک خفیہ پروجیکٹ پر کام کررہی ہوں۔ مگر میرا اگلا درمیانی درجے کا ناول (جس کا عنوان ہنوز طے نہیں ہوا )نو آبادیاتی مخالف وطن واپسی سے متاثر ڈکیتی کی کہانی پر ہوگا جو مئی ۲۰۲۵ء میں منظر عام پر آئے گا۔ میں کچھ ایسے شاندار لوگوں کے ساتھ بھی کام کر رہی ہوں جو میری ’کرن مالا اینڈ دی کنگڈم بیونڈ ‘ سیریز کو چھوٹے پردے پر پیش کرنے کے خواہش مند ہیں۔
اسپَین نیوز لیٹر اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ