ایک تاریخی سفر کا جشن

۱۹۶۲ ءمیں لائبریری آف کانگریس اوورسیز آپریشنس فیلڈ آفس کے نام سے نئی دہلی میں قائم ہونے والے ایل او سی دفتر نے حال ہی میں اپنا ۶۰ واں یومِ تاسیس منایا۔

شارلٹ چائلز

ستمبر ۲۰۲۳

ایک تاریخی سفر کا جشن

نئی دہلی فیلڈ آفس اسٹاف کی ۲۰۰۳ء میں لی گئی ایک تصویر۔(تصویر بشکریہ لائبریری آف کانگریس نئی دہلی فیلڈ آفس)

نئی دہلی میں اوورسیز آپریشنز فیلڈ آفس نے حال ہی میں اپنا ۶۰ واں یومِ تاسیس منایا۔ ۱۹۶۲ ءمیں پہلی لائبریری آف کانگریس اوورسیز آپریشنس فیلڈ آفس کے طور پر قائم ہونے والے نیو دہلی فیلڈ آفس اور اس کے عملہ نے جنوبی ایشیا سے لائبریری مواد کی شناخت، حصول، فہرست سازی اور تقسیم کے مثالی طریقوں کی رہنمائی کی ہے  جسے محققین پورے امریکہ اور بیرون امریکہ بھی استعمال کرتے ہیں۔

نیو دہلی فیلڈ آفس کا قیام یونائیٹڈ اسٹیٹس پبلک لاء (پی ایل) ۴۸۰ پروگرام کے فوراً بعد عمل میں آیا اور یہ کہ دونوں میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ پی ایل ۴۸۰ کو ایگریکلچر ٹریڈ ڈیولپمنٹ اینڈ اسسٹنس ایکٹ آف ۱۹۵۴ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ پروگرام غذائی امداد کے مقصد سے پی ایل ۴۸ (انڈیا ایمرجنسی اسسٹنس ایکٹ آف ۱۹۵۰) کے نام سے شروع ہوا  جسے بعد میں ۱۹۵۴ ءمیں یہ پی ایل ۴۸۰ کر دیا گیا ۔ یہ پروگرام ایشیا اور مشرق وسطی میں ۱۹۶۹ ءتک روبہ عمل رہا اور امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں ایریا اسٹڈیز پروگرامس کے فروغ میں مدد اور لائبریریوں کی کتابوں کے ذخیرے میں اضافہ کرتا رہا تاکہ ان پروگراموں میں نئے اسکالرس کے لیے آسانی پیدا ہو۔ اسے ابتدائی طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ میں اضافی اناج کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنے والے دنیا کے دوسرے حصوں میں منتقل کرنے کے طریقے کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ اس کے عوض پروگرام میں شامل ممالک کو مقامی کرنسی میں ادائیگی کی اجازت دی گئی تھی۔ اس مقامی کرنسی کو بالآخر امریکہ میں یونیورسٹیوں کے لیے مقامی کتابیں اور دیگر مطبوعہ مواد خریدنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ صدر آئزن ہاور نے پی ایل ۴۸۰ کا نام بدل کر فوڈ فار پیس پروگرام رکھ دیا جو سرد جنگ کے دوران نا وابستہ تحریک سے منسلک ممالک کے ساتھ ان سفارتی فوائد کے حصول کی عکاسی کرتا ہے، جن کی توقع تھی۔

پی ایل ۴۸۰ کے دائرہ کار سے باہر آنے سے پہلے نئی دہلی میں واقع اس دفتر کو امریکن لائبریریز بک پروکیورمنٹ سینٹر کہا جاتا تھا۔ رسائی کی فہرستیں (ایکسیشنس لسٹس)، جیسا کہ یہ نئی دہلی کا، پروگرام کے لیے حاصل کی گئی کتابوں، رسالوں اور اخبارات کے عنوانات پر مشتمل ہے۔ نیو دہلی فیلڈ آفس اس سے قبل پورے جنوبی ایشیا (بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ) سے کتابوں کے حصول کا ذمہ دار تھا۔ اس نے کراچی اور ڈھاکہ میں ۱۹۶۲ ءمیں قائم ہونے والے دفاتر کے ساتھ مل کر کام کیا تاکہ پاکستان میں کتابیں جمع کرنے کے عمل میں تیزی لائی جا سکے۔  ۱۹۶۵ ءمیں پاکستان کے دفاتر نے آزادانہ طور پر کام کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ وہاں پروگرام کی ترقی کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی بنی۔ ڈھاکہ کا دفتر بنگلہ دیش کے ایک الگ ملک بننے کے بعد ۱۹۷۲ تک نیو دہلی فیلڈ آفس کے لیے بنگلہ دیش کا ذیلی دفتر بن گیا۔ قبل ازیں بنگلہ دیش ۱۹۴۷ سے ۱۹۷۱ تک پاکستان کا حصہ تھا۔ کراچی کا فیلڈ آفس ۱۹۹۵ میں اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ دنیا بھر میں لائبریری کے دفاتر کی مزید تاریخ کے بارے میں معلومات کے لیے ماضی کے فیلڈ آفس ڈائریکٹرس کیرول مِچل اور جیمس آرمسٹرانگ کے اس مضمون کو پڑھیں۔

نئی دہلی فیلڈ آفس اسٹاف کی ۱۹۹۲ء میں لی گئی ایک تصویر۔(بشکریہ لائبریری آف کانگریس نئی دہلی فیلڈ آفس)

اپنی موجودہ شکل میں نیو دہلی فیلڈ آفس پاکستان کو چھوڑ کر جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے مواد کے حصول کے ساتھ ساتھ اسلام آباد (پاکستان) اور قاہرہ (مصر) میں اوورسیز آپریشنس فیلڈ دفاتر کے ذریعے جمع کردہ مواد کی مائکروفلمنگ کے لیے ذمہ دار ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کی وسیع کوریج کو یقینی بنانے کے لیے نیو دہلی فیلڈ آفس ڈھاکہ (بنگلہ دیش)، کٹھمنڈو (نیپال) اور کولمبو (سری لنکا) میں ذیلی دفاتر کے علاوہ مالدیپ اور بھوٹان میں ماہرینِ کتابیات کے ساتھ کام کرتا ہے۔ مواد کی تیاری کا عمل (مثال کے طور پر مائیکرو فلمنگ، بائنڈنگ اور پیکیجنگ) بھی وہاں کیے جانے والے کام کا اہم حصہ ہے۔ دستیاب مواد کی باقاعدہ پروسیسنگ کے علاوہ نئی دہلی کا عملہ واشنگٹن ڈی سی میں ایشین ریڈنگ روم کے عملے کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے تاکہ مختلف موضوعات کی اہم ویب سائٹس کو محفوظ کیا جا سکے۔ اگرچہ کتابوں کو ڈیجیٹائز کرنے اور الیکٹرانک فارم میں  دستیاب کرانے کے لیے عام طور پر زور دیا جاتا ہے لیکن دنیا کے زیادہ تر لوگ اب بھی کاغذ کی شکل میں کتابیں اور مقالے پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ نیو دہلی فیلڈ آفس کا عملہ اور  واشنگٹن ڈی سی میں لائبریری کا عملہ محققین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دونوں شکلوں میں مواد کے حصول پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

نیو دہلی فیلڈ آفس خاص طور پر کم معروف زبانوں کے لیے خطے کے تمام علاقوں سے کتابوں کے انتخاب اور حصول کی نگرانی کرتا ہے۔ اس کے لیے ان کا عملہ تاجروں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور مختلف علاقوں کا بھی دورہ کرتا ہے۔ان دوروں میں ایسے علاقوں کے دورے شامل ہیں جو کم بولی جانے والی زبانوں کے خطے ہیں ۔ پہلے اوورسیز آپریشنز فیلڈ دفاتر کا ایک مقصد علاقائی کتابوں کی تجارت کا حساب کتاب رکھنا تھا جس کے لیے تمام زبانوں اور شکلوں میں مواد حاصل کرنے کی خاطر زیادہ توجہ کی ضرورت تھی۔ خطے کے وسیع لسانی منظر نامے سے واقف افراد کے لیے شائع شدہ مواد جمع کرنا ایک پیچیدہ کام ہے کیونکہ یہ صرف علامتی نمونے نہیں ہیں بلکہ یہ مختلف زبانوں میں کام کرنے والے محققین کے لیے عملی مواد کا ذخیرہ ہے۔

پی ایل ۴۸۰ کے ذریعہ شروع کیا گیا کام نہ صرف واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کے استعمال کے لیے مواد جمع کرنا تھا بلکہ یہ امریکہ بھر میں تحقیق اور یونیورسٹی کی لائبریریوں کے بھی استعمال کے لیے تھا۔ یہ کام ساؤتھ ایشیا کوآپریٹو ایکویزیشنز پروگرام (ایس اے سی اے پی) کے ذریعہ اب بھی جاری ہے۔ تقریباً ۱۰۰ زبانیں اور بولیاں (جیسے مراٹھی، اردو، فارسی، تمل، کنڑ، کشمیری اور منی پوری) ہمارے کتابوں کے ذخیرے میں شامل ہیں۔ یہ جغرافیائی محل وقوع، زبان اور نوعیت کے حساب سے تمام لائبریریوں کے ریڈنگ رومس میں تقسیم کیے جاتے ہیں جن میں ایشین ریڈنگ روم، افریقن اینڈ مڈل ایسٹرن ریڈنگ روم، مین ریڈنگ روم، جغرافی اینڈ میپ ریڈنگ روم، نیوز پیپر اینڈ کرنٹ پیروڈیکل ریڈنگ روم، پرنٹس اینڈ فوٹوگرافس ریڈنگ روم، پرفارمنگ آرٹس ریڈنگ روم اور ریکارڈڈ ساؤنڈ ریسرچ سینٹر کے علاوہ دیگر ریڈنگ رومز بھی شامل ہیں۔

ان کے کام سےواشنگٹن ڈی سی میں واقع لائبریری آف  کانگریس کی مدد ہوتی ہے جس کے اراکین دستیاب وسیع تحقیق اور حوالہ جاتی مواد کی بدولت باخبر فیصلے کرنے کے اہل بن جاتے ہیں۔ اوورسیز آپریشنس فیلڈ دفاتر اور بین الاقوامی مواد، عمومی طور پر امریکی تارکین وطن کی مشترکہ تاریخ کی یاد دلاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی جنوبی ایشیائی برادری اور تارکینِ وطن تک پہنچنے کی اہمیت بھی بتاتے ہیں۔

لائبریری کی کتابوں کے جنوبی ایشیائی ذخیرے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے براہ مہربانی ’آسک اے لائبریرین سروس ‘ کا استعمال کریں اور جنوبی ایشیائی ریفرنس لائبریرین سے رابطہ کریں۔

 

شارلٹ چائلز  لائبریری آف کانگریس کے ایشیائی ڈویزن کی جنوبی ایشیا سے متعلق ریفرینس لائبریرین ہیں۔

 

یہ مضمون پہلے پہل  لائبریری آف کانگریس کے ’’فور کارنرس آف دی ورلڈ‘‘ بلاگ میں شائع ہوا تھا۔

 

مزید جانکاری کے لیے قاری نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کرکے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ 

“Annual Report on Public Law 480. 1962.” Washington, D.C.: s.n.

Degerald, Michael. “Trading Wheat for Books in the Cold War: Public Law 480 (Food for Peace) and Its Connection to Middle East Studies,” Middle East Critique. Vol. 30, No. 3 (2021), pp. 245-264.

Kirk, Gwendolyn S. “The Books in the Bunker: Global Flows of Meaning and Matter in Academic Assemblages,” South Asia: Journal of South Asian Studies. Vol. 30, No. 3 (2001), pp. 537-553.

Laugesen, Amanda. Taking Books to the World: American Publishers and the Cultural Cold War. Amherst: University of Massachusetts Press, 2017.

Thacker, Mara. “Beyond the Library of Congress: Collecting Practices of South Asia Area Specialist Librarians,” Library Resources and Technical Services. Vol. 59, No. 2 (2015), pp.72-83.


اسپَین نیوز لیٹر مفت حاصل کرنے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں : https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے