سن رسیدگی کی پیچیدگیوں کی جانچ

این آئی ایچ کی مالی اعانت سے کیے جارہے ایک مطالعہ سے دماغی خلل کو سمجھنے اور بھارت میں عمر رسیدہ آبادی کے لیے پالیسی پیش رفت پر عملدرآمد میں مدد مل رہی ہے ۔

گریراج اگروال

January 2023

سن رسیدگی کی پیچیدگیوں کی جانچ

مِنکی چٹرجی(بائیں سے دوسری) سن رسیدگی کی عمر میں ہونے والے ذہنی انحطاط اور دماغی خلل سے متعلق تحقیقاتی پہل اور پروجیکٹ میں مصروف کار ہیں۔ وہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسیز اور وینو انسٹی ٹیوٹ جیسے کئی بھارتی اداروں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔(تصویر بشکریہ مِنکی چٹرجی)

مِنکی چٹرجی  عالمی صحت اور علمِ وبائی امراض کے شعبوں کا احاطہ کرتی ہیں جس میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجنگ (این آئی اے ) میں چل رہی   آبادی کی بڑھتی ہوئی عمر  سے متعلق تحقیق  اور ہم آہنگ علمی تجزیہ سے متعلق پروٹو کال (ایس سی اے پی ) بھی شامل ہے ۔ این آئی اے امریکی قومی انسٹی ٹیوٹ برائے ہیلتھ(این آئی ایچ ) کے انسٹی ٹیوٹس میں سے ایک ہے۔وہ  لانگیچیوڈنل ایجنگ اسٹڈی اِن انڈیا۔ ڈائگنوسٹِک اَیسسمنٹ آف ڈِمنیشیا (ایل اے ایس آئی۔ ڈی اے ڈی )  پروجیکٹ کے  لیے انتظامی اور تکنیکی نگرانی فراہم کرتی ہیں۔ اس پروجیکٹ کے تحت سن رسیدگی میں ذہنی انحطاط اور دماغی خلل کا پتہ لگایا جاتا ہے۔

این آئی اے  کی مالی اعانت والے  ایل اے ایس آئی۔ڈی اے ڈی  میں متعدد  امریکی  اوربھارتی شراکت دار  ہیں   جن میں یونیورسٹی آف ساؤدرن کیلیفورنیا، ہارورڈ یونیورسٹی، لاس اینجلس میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور سان فرانسسکو میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، یونیورسٹی آف مشی گن، جانس ہاپکنس یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پِٹسبرگ، یونیورسٹی آف منیسوٹا، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز اور وینو انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔پیش ہیں مِنکی کے انٹرویو کے اقتباسات۔

آپ حال ہی میں لانگیچیوڈنل ایجنگ اسٹڈی ان انڈیا ۔ڈائیگنوسٹک اَیسسمنٹ آف ڈیمنشیا (ایل اے ایس آئی- ڈی اے ڈی )  ویو ٹو اسٹڈی کے لیے  بھارت آئی  تھیں ۔ کیا آپ ہمیں اس اہم پہل کے بارے میں بتا سکتی  ہیں ؟ یہ بھی بتائیں کہ یہ امریکہ اور بھارت کے لیے کیوں اہمیت کا حامل  ہے؟

دنیا  میں  سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں سے ایک بھارت  جلد ہی تیزی سے درازی عمر کا  تجربہ کرے گا۔ ۲۰۵۰ءتک بھارت  کی ۶۰ سال اور اس سے زیادہ عمر کی آبادی ۳۲۰ ملین تک پہنچنے کا امکان ہے جو کہ پوری امریکی آبادی  کے موجودہ حجم کے برابر ہے۔

ایل اے ایس آئی۔ ڈی اے ڈی  تحقیق کاروں  کو اس بڑھتی ہوئی آبادی میں  سن رسیدگی   میں ذہنی انحطاط  اوردماغی خلل  اور اس کے خطرے کے عوامل کا مطالعہ کرنے  میں اہل  بناتا ہے۔

حالانکہ دماغی خلل  کا بڑھتا ہوا بوجھ ایک فوری چیلنج پیش کرتا ہے۔ تاہم اس حالت کا مطالعہ کرنے سے متعلق  کی گئی   سابقہ ​​کوششیں جغرافیائی طور پر محدود خطوں  میں نمونوں پر منحصر رہی ہیں۔  ایل اے ایس آئی۔ ڈی اے ڈی    نہ صرف بھارت  میں دماغی خلل کی تحقیق کے لیے قومی سطح پر نمائندہ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے ایک نئی سائنسی بنیاد فراہم کرنے میں اہم ہے بلکہ  جینیاتی اور فضائی آلودگی کے جوکھم سمیت  خطرے کے عوامل پر اس کا بھرپور  ڈیٹا بھی  اہمیت کا حامل   ہے۔

ایل اے ایس آئی۔ ڈی اے ڈی نمونہ بڑے  لانگیچیوڈنل ایجنگ اسٹڈی  آف انڈیا (ایل اے ایس آئی ) سے لیا گیا ہے، جو ۴۵ سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی صحت، اقتصادیات اور سماجی بہبود کا ایک جائزہ ہے۔ اس کا ۷۲ ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل نمونہ ملک بھر میں موجود  وافر نمونے کے حجم کے ساتھ  قومی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے ۔

ایل اے ایس آئی۔ ڈی اے ڈی  نےبھارت کے ۱۹  صوبوں  اور مرکز کے زیر انتظام  خطوں  سے ۶۰ سال یا اس سے زیادہ عمر کے ۴ ہزار سے زائد  جواب دہندگان کا ذیلی نمونہ حاصل  کیا، ایچ سی اے پی  ذہنی انحطاط  سے متعلق تجربات کیے  اور شرکاء کے ذریعے شناخت شدہ  کنبے کے کسی فرد یا دوست کا انٹرویو کیا۔

یہ پروجیکٹ سرکاری ایجنسیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو دماغی خلل  کے بارے میں درست معلومات فراہم کرتے ہیں جو بھارت میں عمر رسیدہ آبادی کے لیے پالیسی پیش رفت  اور پروگرام پر عمل درآمد  کرانے  میں  مدد کرتے ہیں۔

یہ  پروجیکٹ این آئی ایچ اور این آئی اے  کے لیے بھی اہم ہیں کیونکہ ڈیٹا محققین کو تقابلی تجزیہ کرنے کا موقع مل جا تا  ہے۔توقع  ہے کہ اس تحقیق سے الزائمر کی بیماری اور متعلقہ دماغی عوارض  کے لیے خطرے اور حفاظتی عوامل کی نشاندہی میں مدد ملے گی جس سے دنیا بھر میں عمر رسیدہ آبادی کی زندگیوں  کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

آپ کے خیال میں وہ کون سے شعبے ہیں جن میں امریکہ اور بھارت صحت  تحقیق میں تعاون کو گیرائی عطا  کر سکتے ہیں اور کیوں؟

ایل اے ایس آئی اور ایل اے ایس آئی۔ ڈی اے ڈی پروجیکٹوں  پر امریکہ۔بھارت تعاون ہمارے آگے بڑھنے کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ این آئی اے نے    یو ایس ہیلتھ اینڈ ریٹائرمنٹ اسٹڈی  سمیت تمام ممالک میں سن  رسیدگی اوردماغی خلل  کی تحقیق کے لیے  قابل موازنہ ڈیٹا تیار کرنے پر  توجہ مرکوز  کی ہے۔ ایچ سی اے پی  کی ترقی کا مقصد آبادی پر مبنی دماغی خلل  کی تحقیق کے لیے بین الاقوامی سطح پر موازنہ کرنے والا ڈیٹا  کا حصول ممکن بنانا تھا۔ ایل اے ایس آئی اور ایل اے ایس آئی۔ ڈی اے ڈی  مطالعات اس سمت میں ایک قدم  ہیں ۔

ایل اے ایس آئی اور ایل اے ایس آئی۔ڈی اے ڈی  کے تناظر میں تعاون کی ایک اور مثال وبا کے عروج کے دوران کووِڈ ۔۱۹ کے بارے میں رئیل ٹائم  ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھنے  کی صلاحیت تھی۔

اس کے علاوہ، ان تخمینوں کے مدنظر  کہ موسمیاتی تبدیلی مستقبل میں متعدی بیماریوں کے اثرات کو مزیدابتر کرے گی، ان اثرات کی جانچ کےلیے بین الاقوامی سطح پر ان  تقابلی مطالعات کو استعمال کرنے کے مواقع موجود ہوں گے۔

کیا آپ ہمیں  بھارت  میں اس مطالعہ پر کام کرنے  کے اپنے  تجربات کے بارے میں کچھ بتا سکتی  ہیں؟ کیا آپ  کی  کوئی پسندیدہ جگہ ہے  جہاں کا  آپ نے دورہ کیا ہے؟ کوئی پسندیدہ کھانا، فلم، یا تجربہ جو آپ ہمارے قارئین کے ساتھ بانٹنا چاہیں گی ؟

وبا کے  بعد بھارت واپس آکر بہت اچھا لگا۔ دہلی میں اپنی  رسمی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے بعد میں اپنے والدین کو کولکاتہ لے گئی  جہاں پرنسپ گھاٹ، وکٹوریہ میموریل اور گریہاٹ مارکیٹ  کے دورے کے دوران   بہت زیادہ  پرانی یادیں تازہ ہو ئیں۔ میں کھانے کی بھی  بڑی شوقین ہوں ، اس لیے  بھارت  آنا ہمیشہ  ایک بڑی دعوت میں شرکت کرنے جیسا معلوم ہوتا ہے۔

آپ  کو صحت عامّہ کے شعبے  میں مہارت حاصل ہے  اور آپ  ایک کام کرنے والی ماں  ہیں۔ کیا آپ بھارت  کے نوجوانوں کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گی ، خاص طور پران  نوجوان خواتین کے لیے جو اعلیٰ تعلیم یا سائنس میں کریئر بنا رہی  ہیں؟

میں ایک عالمی ماہر صحت اور تین بیٹیوں کی قابل فخر ماں ہوں، جن کی عمریں ۲۵، ۲۲ اور ۱۶ سال ہیں۔ حالانکہ میرے لیے عالمی صحت کے کریئر اور  بچوں کی پرورش وپرداخت  میں توازن قائم کرنا مشکل تھا، تاہم مجھے اپنے شاندار شوہر کی پُر زور حمایت حاصل ہوئی   جس نے میرےکریئر کو پروان چڑھانے کے لیے  بہت کچھ کیا۔  میرا یہ بھی ماننا ہے  کہ میرے کریئر نے میری بیٹیوں کو بھی اپنے پیشہ ورانہ خوابوں کو پورا کرنے کی ترغیب دی ہے۔

میرا  بھارت  کے نوجوانوں ، خاص طور پر نوجوان خواتین کے لیے پیغام ہے  کہ وہ کام اور زندگی کے مابین  توازن  پیدا کرنے کی  کوشش کرتے ہوئے  اپنا مقصد بلند رکھیں ۔ میں خواتین اور مردوں کی اگلی نسل کی حصولیابیوں  کو دیکھنے  کی منتظر ہوں ۔میں  صحت کے شعبے میں عدم مساوات کے معاملے میں بہت زیادہ پیش رفت دیکھ رہی ہوں اور میں اپنی شراکت داری کے ذریعے مزید پیش رفت   کی امیدرکھتی ہوں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے