تبدیلی کی داستانیں

تھیٹر الائنس، اسٹوری سینٹر اور شکتی واہنی کے درمیان ایک عالمی شراکت داری انسانی اسمگلنگ سے بچ جانے والے لوگوں کی طاقتور کہانیوں کو تبدیلی کے آلات میں تبدیل کرتی ہے۔

پارومیتا پین

December 2021

تبدیلی کی داستانیں

 

بھارت میں انسانوں کی سودے بازی  کا خاتمہ کے عنوان سے ۵ دنوں پر مشتمل ایک ورک شاپ میں تھیٹر گیمس، قصہ گوئی کے کارکردگی پر مبنی طریقے اور کہانیوں کی ساجھے داری کے ذریعہ گروہوں میں طبقات سازی کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ تصویر بشکریہ ایمی ہِل۔

’’جب میں نویں جماعت میں تھی ، تب میں کمپیوٹر کی کلاس میں جایا کرتی تھی۔ وہاں تربیتی مرکز کے باہر میری ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی۔ ہم نے تھوڑی بات  کی اور یوں ہم دوست بن گئے، کم از کم مجھے تو یہی لگا کہ وہ میرا دوست ہے۔‘‘ ایم

’’جب ہم بڑے شہر میں پہنچے تو انہوں نے ہمیں ایک ہوٹل میں رکھا ۔ مجھے پتہ چلا کہ کوئی کام نہیں تھا ، یہ   ایک جھوٹ تھا۔ دو عورتیں آئیں اور مجھے   اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔عورتوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے مجھے خرید لیا ہے۔ میں حیران ہوئی کہ کسی انسان کو کیسے خریدا جا سکتا ہے۔ مگر میں کچھ نہیں کر سکی۔‘‘ ایلا

’’ جب میں ۱۷ سال کی تھی تو میرے والدین نے چاہا کہ میری شادی کر دیں۔ تب میں نے ۱۲ کلاس ہی پاس کی تھی۔ میں اپنی تعلیم کا سلسلہ  جاری رکھنا چاہتی تھی  اور اتنی جلدی  بیوی نہیں بننا چاہتی تھی۔ جب میں نے اپنی چچی کو بتایا کہ کیا ہورہا  ہے تو انہوں نے مشورہ دیا کہ میں ان کے ساتھ کام کی تلاش میں دہلی آجاؤں۔‘‘ پاروتی

’’ میرے والد ہمیشہ سے ایک بیٹا چاہتے تھے لیکن انہیں مجھ سمیت چھ بیٹیاں ملیں۔ مجھے گھر پر رہنے سے نفرت تھی کیوں کہ  وہ ہمیشہ مجھے بلا وجہ ڈانٹتے تھے۔ وہ ہم سب کو مارا بھی کرتے ۔ جب میں نے سنا کہ ہمارے گاؤں کا ایک لڑکا دہلی جا رہا ہے اور وہ مجھے وہاں نوکری دلوا سکتا ہے ، تو میں نے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔‘‘ اسریتا

’’ اس نے مجھے پینے کو کولا دیا۔ اس کو پیتے ہی میرا سر چکرانے لگا ۔ ایس لگا کہ میں ہوش کھو رہی ہوں۔ میں نے مدد مانگنے کی کوشش کی لیکن بول نہیں سکی۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک ٹرین میں سوار تھی۔‘‘ گمنام

اقوام متحدہ نے انسانی اسمگلنگ کی تعریف ’’منافع کے لیے ان کا استحصال کرنے کے مقصد سے، زبردستی، دھوکہ دہی یا فریب کے ذریعے لوگوں کی بھرتی، نقل و حمل، منتقلی، پناہ  دینے  یا وصولی‘‘ کے طور پر کی ہے۔ اقوام متحدہ نے  اپنی ویب سائٹ پروضاحت کی ہے ’’دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے اس جرم کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ شکار بننے والے مرد، عورتیں اور بچے بھی ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

سنہ ۲۰۱۹ء میں تھیٹر الائنس، اسٹوری سینٹر، شکتی واہنی اور کولکاتہ میں امیریکن سینٹر نے  ’’بھارت میں انسانی اسمگلنگ کا خاتمہ ‘‘ کے عنوان سے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا جس نے اس تعریف کو زندہ کیا جوزندہ بچ جانے والوں کی طاقتور کہانیوں کو جمع کر کے اور انہیں ساجھا کر کے انفرادی زندگیوں، کنبوں اور برادریوں  کو  متاثر کرتی ہے۔  پروجیکٹ کے تحت انسانوں سے انسانوں کے تعلق والے پروگراموں کی توسیع کرنے  اوربرادریوں  اور شراکت داروں کو شامل کرنے کے لیے اختراعی طریقوں کا استعمال کیا جاتاہے، جس میں کیلیفورنیا میں واقع اسٹوری سینٹر کے ڈیجیٹل کہانی سنانے کے ماہرین کی قیادت میں پانچ روزہ ورکشاپ اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں واقع تھیٹر  الائنس سے ’پرفارمیٹواسٹوری‘ سنانا شامل ہے۔

 انصاف کی وکالت کرنا

اسٹوری سینٹر کی ایک سہولت کار ایمی ہِل کہتی ہیں’’یہ ورکشاپ شرکاء کے لیے اپنی کہانیوں کو اپنے الفاظ میں ساجھا  کرنے اور اس طرح، اپنی کہانیاں سنانے پرمخصوص قسم کا اثر مرتب کر نے کا ایک شاندار موقع تھا۔ان کے تجربات اور کہانیاں انسانی اسمگلنگ اور صنفی بنیاد پر تشدد زدہ  نوجوان خواتین کی روزمرہ کی حقیقتوں کا اظہار کرتی ہیں۔‘‘شرکاء نوجوان خواتین تھیں جو یا تو انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بنی تھیں یا اسمگلنگ اور صنفی بنیاد پر تشدد سے ان کا ذاتی تعلق تھا۔

تھیٹر الائنس سے تعلق رکھنے والے ریمنڈ کالڈویل نے پروگرام کے لیے زیادہ تر ضروری تیاری کرنے  کا سہرا شکتی واہنی کے سر باندھا۔ وہ کہتے ہیں ’’ میں ایک فنکار کے طور پر کلاسیکی بھارتی داستانوں سے بہت  زیادہ ترغیب حاصل کرتا  ہوں۔امریکہ میں میری بنیادی تحقیق ہمیشہ کہانی سنانے کی تبدیلی کی طاقت کے ارد گرد رہی ہے ۔ اور یہ دیکھنا دلچسپ   تھا کہ ہم روابط بنانے میں کامیاب ہوئے اور ہم زندہ بچ جانے والوں کی حقیقی زندگیوں اور تجربات کی عکاسی کرنے کے لیے تحقیق کو کیسے آگے بڑھا سکے۔‘‘

 

کارکردگی اور فن

پانچ دنوں کے دوران گروپ کے درمیان کمیونٹی کی تعمیر کے لیے تھیٹر گیمز، ’پرفارمیٹیو اسٹوری ٹیلنگ‘(اداکاری کے ذریعہ قصہ گوئی)جیسی سرگرمیوں اور کہانی ساجھا کرنے کا امتزاج کیا  گیا۔ ایمی کہتی ہیں’’نوجوان خواتین کہانی کاروں  کو پہلے سے تربیت یافتہ نوجوانوں کی چھوٹی ٹیموں کی مدد حاصل تھی جن کے ساتھ ہم پہلے کام کر چکے تھےاور جو ہمارے طریقوں سے واقف تھےہمیں اعتماد اور تعلق پیدا کرنے کی ضرورت تھی، لہذا ریمنڈ نے تفریحی، انٹرایکٹو گیموں کی قیادت کی جس سے لوگوں کو ایک دوسرے کو جاننے اور ان کے محافظوں کو مایوس کرنے کا موقع ملا۔ زبان کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس ہر جگہ ترجمان موجود تھے۔‘‘

ڈیجیٹل کہانی سنانے کی تکنیکوں کو مرحلہ وار ورکشاپ میں مربوط کیا گیا۔ پانچ روزہ ورکشاپ کے دوران شرکاء نے ابتدائی طور پر اپنی کہانیاں چھوٹے گروپوں اور کہانی کے ایک حلقے میں ساجھا کیں۔ جیسے جیسے ورکشاپ آگے بڑھی، شرکاء نے اپنی کہانیاں ریکارڈ کیں، تصویری بورڈز بنائےاور اپنی ریکارڈنگ کو ایڈٹ  کرنے کا طریقہ سیکھا۔ ایمی نے کہا ’’ آخری دن، ہم نے ویڈیوز کو حتمی شکل دی اور صرف ورکشاپ کے شرکا کے لیے اس کی نمائش کی۔  ایک غیر رسمی، اندرونی اسکریننگ کی۔ تقریباً ایک ہفتہ بعد ہم نے باقاعدہ  نمائش کا انتظام بھی کیا۔ ‘‘اس نے اور  ریمنڈ نے نوجوان شرکاء کے حوصلے  اور لچیلےپن کو متاثر کن پایا۔ ریمنڈ کہتے ہیں ’’ان میں سے  کئی لوگوں نے خود کو متاثر  کے طور پر نہیں دیکھا۔ان کے لیے یہ  ان کی زندگی کا ایک ایسا  لمحہ تھا  جسے  وہ ماضی کو پانے کے لیے کام کر رہے تھے۔‘‘

بنائے گئے ویڈیوز کو افراد کی اسمگلنگ کے خلاف عالمی دن کی یاد میں شیئر کیا گیا ۔ اور بھارت میں انہیں ملک گیر پیمانے پر متعدد  مقامات پر دکھایا  بھی جا رہا ہے۔ ویڈیوز کو پولیس اہلکاروں کو حساس بنانے کے لیے تیار کی گئی تربیت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ شکتی واہنی کے سی ای او روی کانت کہتے ہیں ’’پولیس اس طرح کے حالات میں سب سے پہلے جواب دینے والوں میں سےہے۔ شجاعت پر مبنی یہ کہانیاں یہ بتانے میں انتہائی مددگار ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے حالات سے کیسے نمٹنا چاہیے اور زندہ بچ جانے والوں کی نفسیات کو کس طرح سمجھنا چاہیے۔‘‘

پارومیتا پین  رینو میں واقع  یونیورسیٹی آف نیواڈا میں  گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون  پروفیسر ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے