سمعی خلل کابصری حل

ایک بھارتی اور ایک امریکی طالب علم نے مل کر ایک ایسا اسٹارٹ اپ قائم کیا ہے جس نے سماعت سے محروم افراد کے لیے ایک سستا حل ممکن بنایا ہے۔

جیسون چیانگ

October 2023

سمعی خلل کابصری حل

’ٹرانسکرائب گلاس‘ سماعت سے متعلق پریشانی سے دوچار افراد، عمردراز لوگ اور ایسے لوگوں کے لیے جو بولی جاسکنے والی آواز کو بہتر طور پر سمجھنا چاہتے ہیں، کے لیے پہنا جا سکنے والا ایک مددگار آلہ ہے۔ (تصویر بشکریہ ٹِنکر ٹیک لَیبس)

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ۲۰۵۰ء تک تقریباً دو اعشاریہ پانچ بلین افراد کے کسی نہ کسی حد تک سماعت سے محروم ہوجانے کا امکان ہے۔ اسی موقر عالمی ادارے کے ایک اندازے کے مطابق بھارت میں تقریباً چھ کروڑ ۳۰ لاکھ افراد سماعت کی کمزوری کا شکار ہیں۔ کم سننے والوں اور سماعت سے محروم افراد کو مستقبل میں مواصلاتی رکاوٹ کے اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں معاشرے سے الگ تھلگ ہونا، بے روزگاری میں اضافہ یا کم اجرت کا ملنا شامل ہیں۔

نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے ییل یونیورسٹی کے طالب علم مادھو لواکرے اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ ٹام پِرٹسکی نے مل کر ’ٹرانسکرائب گلاس‘ کے نام سے ایک اسٹارٹ اپ کی بنیاد رکھی جس نے جزوی یا کلی طور پر قوتِ سماعت سے محروم افراد کے لیے ایک سستا حل پیش کیا ہے۔ دونوں (لوکرے اور پرٹسکی) کو دونوں کانوں میں سماعت کی محرومی کا سامنا ہے۔

اس چیز کو ، جس کا نام ’ٹرانسکرائب گلاس ‘ ہی رکھا گیا ہے، کو سماعت سے محروم، کم سننے والے اور معمر افراد بولی جانے والی باتوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے عینک کی طرح پہن سکتے ہیں۔ یہ کثیرالمقاصد آلہ حقیقی وقت میں کہی ہوئی بات کو متن میں ترجمہ کر دیتا ہے اور اسے صارف کی آنکھوں کے سامنے ایک چھوٹے سے شفاف ڈسپلے پر پہنچا دیتا ہے۔ مختلف آلات پر’ اسپیچ ٹو ٹیکسٹ ایپلی کیشنس ‘ کے برعکس، جہاں کہی ہوئی بات کو دیکھنے کے لیے صارفین کو اسکرین پر نظر ڈالنی پڑتی ہے، ٹرانسکرائب گلاس صارفین کو بات کرنے والے کو دیکھتے ہوئے کیپشن پڑھنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

’ٹرانسکرائب گلاس ‘استعمال کرنے کے لیے صارف اس کی موبائل ایپ لانچ کرتا ہے اور اسے’ کیپشن سورس ‘ سے منسلک کرتا ہے۔ مثال کے طور پر گوگل اے پی آئی یا ڈیپ گرام۔ متن کو بلوٹوتھ کے ذریعے ’ٹرانسکرائب گلاس ڈسپلے ‘ پر منتقل کیا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا وزن ۳۰ گرام سے بھی کم رکھا گیا ہے۔ اسے عینک یا پھر خالی فریم سے بھی منسلک کیا جاسکتا ہے۔ صارفین’ کیپشن فونٹ‘  کا سائز بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔’ ٹرانسکرائب گلاس ‘ فی الحال ایسی کسی بھی ایسی زبان کے لیے کام کرتا ہے جو رومن/لاطینی حروف تہجی استعمال کرتی ہے۔

ٹیم میں شامل ہونا

لواکرے اُس وقت نئی دہلی میں گیارہویں جماعت کے طالب علم تھے جب ان کے ایک دوست، جسےسننے میں دقت کا سامنا تھا، نے اسکول چھوڑ دیا کیونکہ وہ اپنے سبق کو یا پھر اپنے آس پاس ہونے والی بات چیت کو سن نہیں پاتا تھا۔ وہ اپنے دوست کی مدد کے لیے کسی حل کی تلاش میں تھے۔ ۲۰۲۰ءمیں یو ایس انڈیا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی انڈومنٹ فنڈ (یو ایس آئی ایس ٹی ای ایف) سے مالی اعانت حاصل کرنے والے لواکرے کہتے ہیں ’’موبائل ایپس حقیقی وقت میں بات چیت کو متن میں منتقل کر سکتے ہیں لیکن چونکہ میرا دوست بصری اشاروں پر بہت زیادہ منحصر تھا لہٰذا اس کی نظروں کے سامنے  کیپشنس کو لانے کی ضرورت تھی۔‘‘

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں سماعت سے محروم اور بڑی مشکل سے سن پانے والے محروم افراد کے کلب کے بانی پرٹسکی تین سال کی عمر سے ہی سماعت سے محروم ہیں اور بات چیت کے لیے باقاعدگی سے سماعت کے آلات اور’ لِپ ریڈنگ‘  کا استعمال کرتے ہیں۔ لواکرے کی طرح ہی پرٹسکی نے بھی سماعت سے محروم افراد کی مدد کے لیے ایک سستے کیپشن ڈیوائس کے امکان کا خیال پالا۔ پرٹسکی کا کہنا ہے ’’مجھے فلموں کے لیے کیپشن بہت پسند ہیں۔ میں نے سوچا کہ اگرحقیقی زندگی میں  بھی ان کا استعمال ہوسکے  تو بہت اچھا ہوگا۔‘‘

لواکرے اور پرٹسکی کی ملاقات ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ہوئی تھی۔ ان دونوں کو معاون ٹیکنالوجی کی دنیا سے بہت لگاؤ ہے۔ اس ٹیم میں شامل ہونے سے پہلے دونوں ہی آزادانہ طور پر اس سلسلے میں  غور و فکر کر رہے تھے۔ لواکرے کے مطابق ییل یونیورسٹی میں کل وقتی طالب علم کی حیثیت سے خود کاروبار کو چلانا مشکل تھا جس کی وجہ سے پرٹسکی ٹیم کا ایک انتہائی ضروری حصہ بن گئے۔ لواکرے مزید کہتے ہیں کہ ایک صارف کے طور پر پرٹسکی کی بصیرت ہمارے اسٹارٹ اپ کے لیے ’کافی اہمیت کا حامل‘ تھی۔‘‘

ابتدائی نمونہ

صارفین کا ردعمل ’ٹرانسکرائب گلاس ‘ کے ڈیزائن کے عمل کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ لواکرے اور پرٹسکی کا اندازہ ہے کہ اپنے مختلف نمونوں کے مراحل کے دوران کم از کم ۳۰۰ افراد نے’ ٹرانسکرائب گلاس‘  کا تجربہ کیا ہے۔

پانچ مختلف نمونوں کو مکمل کرنے کے بعد’  ٹرانسکرائب گلاس ‘ اب ان کی جگہ ایک سستا اور آرام دہ متبادل پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔ لواکرے کہتے ہیں ’’ایک چیز جس کی ہم ٹرانسکرائب گلاس میں واقعی قدر کرتے ہیں وہ اس حل کا سماج میں قبول کیا جانا ہے۔‘‘ پرٹسکی مزید کہتے ہیں ’’ہمارا مقصد کسی بھی قسم کے ڈیٹا سے آزاد (سورس ایگنوسٹک) ہونا ہے۔ ہم گوگل اسپیچ، ڈیپ گرام، مائیکروسافٹ جیسے کسی بھی اے پی آئی کے ساتھ مل کے کام کر سکتے ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصد سماعت سے محرومی کا حل تلاش کرنے میں مدد کرنا ہے۔‘‘

کمپنی نے حال ہی میں اپنے پہلے ۱۵۰ پری آرڈرس کی تیاری شروع کی ہے اور اسے امید ہے کہ اگلے چند مہینوں میں ان کی شپنگ مکمل کی جائے گی۔ ’ٹرانسکرائب گلاس بیٹا ‘تقریباً ۴۵۰۰ روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس کے حتمی ورژن کی قیمت تقریباً ۸۰۰۰ روپے ہو سکتی ہے۔

لواکرے کہتے ہیں ’’ٹرانسکرائب گلاس کے مستقبل کے ورژن میں بہت ساری تبدیلیاں ہونی ہیں جن میں زبانوں کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت یا ممکنہ طور پر گرافکس کی سہولت، جن سے وہ افراد فائدہ اٹھا سکتے ہیں جنہیں قوتِ سماعت کے علاوہ دوسری طرح کی معذوریاں بھی لاحق ہیں۔‘‘

جیسون چیانگ لاس اینجلس کے سلور لیک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلم کار ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر کو مفت میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے