جمہوریت کا دل

نوجوان قائدین تبدیلی کے ضامن ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو کمزور طبقات کو اوپر اٹھارہے ہیں اور ایک ایسے مستقبل کی تعمیر میں مصروف ہیں جس میں ہر طرح کی بات کی اہمیت ہو۔

مائیکل گیلنٹ

March 2022

جمہوریت کا دل

گیتانجلی ببر(مرکز میں) کٹ کتھا کی بانی اور ڈائریکٹر ہیں۔

’’اکثر و بیشتر نوجوانوں سے بے توجہی برتی جاتی ہے۔ ان کے نقطہ نگاہ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ یقینی طور پر ناقابل قبول ہے ، خاص طور پر اس وقت جب کہ جمہوریتوں کو جن مسائل کا سامنا ہے ان سے سب سے زیادہ متاثر نوجوان طبقہ ہی ہو رہا ہے۔‘‘

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لِنڈا تھامس گرین فیلڈ نے ان خیالات کا اظہار یوتھ ٹاؤن ہال میں گذشتہ برس واشنگٹن ڈی سی میں جمہوریت کے چوٹی اجلاس کے دوران کیا۔اس مخصوص تقریب میں ۶۰ سے زائد ممالک نے نوجوان قائدین نے شرکت کی۔ مذکورہ اجلاس میں بھارت کی دو خواتین گیتا نجلی ببر اور شریا سین بھی شامل تھیں۔ یہ دونوں خواتین ایسی تنظیموں سے منسلک ہیں جو کمزور ترین طبقات کو بااختیاربنانے میں مصروف ہیں تاکہ ان کی بھی بات سنی جا سکے۔ گیتانجلی کَٹھ کتھا کی بانی ڈائریکٹر ہیں۔ کَٹھ کتھا اصل میں ایک غیر منفعت بخش تنظیم ہے جو جنسی تجارت میں ڈھکیل دی گئی خواتین اور بچیوں کو دوبار ہ نئی زندگی شروع کرنے میں مدد کرتی ہے۔ جب کہ شریا کا تعلق ’ نزدیک‘ نامی ایک تنظیم سے ہے جہاں وہ سینئر محقق اور ٹرینر کے عہدے پر فائز ہیں۔ واضح رہے کہ ’نزدیک‘ صرف اور صرف خواتین پر مشتمل ایک تنظیم ہے جو کمزور برادریوں کو ملک کے قانونی نظام تک رسائی میں مدد کرتی ہے۔

کٹھ کتھا کے معنی ہیں کٹھ پتلی کی کہانی۔ کٹھ پتلیو ں کی مانند ہی خواتین بھی کئی چیزوں سے متاثر ہوتی ہیں ۔ مثال کے طور پر غیر قانونی جنسی تجارت میں ملوث افراد، بد سلوکی کرنے والے، گاہک، مالکان، پولیس، معاشرہ۔ تنظیم کا مقصد ہے کہ وہ خواتین کو بیڑیوں سے آزاد کرائے تاکہ ہر عورت اپنے اندر موجود صلاحیتوں کا ادراک کرسکے اور اپنی مرضی کے حساب سے پروقار زندگی بسر کرسکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کٹھ کتھا مختلف پروگراموں ، مثال کے طور پر تدریسی مدد ، دماغی صحت مدد اور ووکیشنل تربیت مدد کا سہار لے رہی ہے۔

سین بتاتی ہیں کہ’نزدیک‘ زمینی سطح کی قانونی تعلیم، تحقیق، وکالت اور دیگر تدابیر کو بروئے کار لاکربااختیار بنانے کے انہیں جیسے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ہمارے کام کی بدولت طبقات کو ایسے مواقع مل رہے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کا نہ صرف مطالبہ کر پا رہے ہیں بلکہ ان کا تحفظ بھی یقینی بن رہا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کی تنظیم قانون اور کمزور شہریوں کے درمیان موجود قانونی خلا کو پُر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ گوکہ بعض بہت اچھی پالیسیاں کاغذ پر موجود ہیں مگر کمزور برادریوں کو فائدہ پہنچانا ایک الگ بات ہے۔ لہٰذا، ’ نزدیک‘ شہریوں کو جوڑنے کی کوشش کرتی ہے ، ان کے قوانین کی تشریح کرتی ہے اور قانونی امداد اور مشاورت فراہم کرتی ہے۔

قیادت کا سفر

گیتانجلی کے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایک ایسی تنظیم بنائیں گی جوجسم فروش خواتین کی بہبود کے لیے کام کرےگی ۔ مگر جب وہ نئی دہلی میں قومی ایڈس کنٹرول تنظیم کے ساتھ وابستہ تھیں اس وقت انہیں اس کام کی ترغیب ملی ۔وہ بتاتی ہیں

’’جسم فروش خواتین سے شروعاتی دور کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے مسائل ایڈس پر قابو پانے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہیں جن کا تدارک لازمی ہے۔ میں نے آفس کااپنا کام ختم کرکے ان خواتین سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا اور میں گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھ کران کی باتیں سنتی۔‘‘ چند خواتین نے گیتا نجلی سے پوچھا کہ کیا وہ انہیں پڑھنا لکھنا بھی سکھا سکتی ہیں۔ دوست،احباب اور رضاکار گیتانجلی کی مدد کے لیے آگے آئے اور بس ۔ کٹھ کتھا کا کارواں بنتا چلا گیا۔ سین کے ’نزدیک‘کے ساتھ سفر کاآغاز بھی کچھ اسی طرح کا اتفاق تھا۔ ایک مشترکہ دوست نے سین کا اس تنظیم سے تعارف کروایا۔ اور بس فوراً ہی سین نے’نزدیک‘کے لوگوں کو ملک کے قانونی نظام سے باور کرانے کے مقصد کوسمجھ لیاــ جن طبقات کے ساتھ ’نزدیک‘ کام کرتی ہے ان سب میں خواتین اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

یہ خواتین وہ ہوتی ہیں جو کبھی نہ کبھی ذات، طبقہ، جغرافیائی مقامات، پیشہ اور مذہب کو لیکر تشدد کا شکار رہی ہیں۔ اس طرح’نزدیک‘ اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ کمزور ترین طبقات کو معاشرہ میں ان کا صحیح مقام حاصل ہو اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔

سین بتاتی ہیں کہ ’ نزدیک‘ ان طبقات کے مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کو بڑھا کر پیش کر تی ہے۔مثال کے طور پر ’نزدیک‘ کے شہری قانونی بااختیار بنانے کے پرو جیکٹ میں دہلی کے دو علاقوں گول مارکیٹ اور بھیم نگر میں ۲۵ خواتین کو شامل کیا گیا۔

اس پروجیکٹ کا ہدف معاشی طور پر کمزور خواتین کے مادرانہ حقوق کا فروغ ہے۔’نزدیک‘ کی مدد سے خواتین نے طبقات میں کام کر رہے پیرا لیگل کے سہارے ۲۰ سے زائد انتظامی شکایتیں درج کرائیں۔ان شکایتوں کا مقصد مادرانہ صحت، تغذیہ، رہائش اور صفائی ستھرائی کے فوائد کے نظام میں بہتری لانا تھا۔ ان کی کاوشوں کا ہی ثمرہ ہے کہ اب ایک ٹوٹے پھوٹے اجتماعی بیت الخلاکی تعمیرِ نو ہوئی ہے اورصاف پینے کے پانی کا بھی بندو بست ہوا ہے۔

کٹھ کتھا بھی جن برادریوں میں کام کرتی ہے ان میں وہ مثبت طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ گیتانجلی دو ایسی لڑکیوں کے بچاؤ کی کہانی بیان کرتی ہیں جن کو قید کرکے بیچنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔وہ کہتی ہیں ’’ان لڑکیوں نے کمال بہادری اور ہمت دکھائی اور اپنے دفاع کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ آج ان کی عمر ۱۶ اور ۱۸ برس ہے اور وہ اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں اور محفوظ ماحول میں جی رہی ہیں۔‘‘

گیتانجلی نے کتھا کی ایک اور رکن کے بارے میں بتایا کہ کیسے وہ ۲۰ سالہ خاتون قحبہ خانہ چھوڑ کر آئی اور ہنر کی تربیت حاصل کی۔ وہ کہتی ہیں ’’ اب وہ اپنے گھر واپس چلی گئی ہے اور کپڑے سی کر اپنی زندگی بسر کر رہی ہے۔ وہ اپنے شوہر اور اپنی بیٹی کا بھی پورا خرچ برداشت کررہی ہے۔ ان تمام کہانیوں سے مجھے مزید کام کرنے کی مسلسل ترغیب ملتی رہتی ہے۔‘‘

فعالیت اور جمہوریت

گیتانجلی اور سین نہ صرف اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی تنظیموں میں مہارت پیش کرتی ہیں بلکہ عالمی نقطہ نظر کا بھی اضافہ کرتی ہیں ۔ دونوں امریکی حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے تبادلہ پروگرام میں شرکت کر چکی ہیں ۔ دونوں نے دسمبر ۲۰۲۱ میں یوتھ ٹاؤن ہال میں شرکت کی جس میں انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی، کووڈ۱۹عالمی وبا، نسلی انصاف، مساوات اور مشمولیت جیسے موضوعات پر گفتگو کی۔ گیتانجلی کہتی ہیں’’میں اس چوٹی اجلاس میں شرکت کرکے بے حد مشکور ہوں۔ یہ سیکھنے کانہایت ہی شاندارتجربہ رہا۔ اور مجھے امید ہے کہ ایسے چوٹی کے اجلاس مسلسل منعقد ہوتے رہیں گےجن میں متنوع اقسام کے شرکا شرکت کرتے رہیں گے۔پوری دنیا کے قائدین کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ ایک ساتھ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

سین بھی یوتھ ٹاؤن ہال میں شرکت کرکے کافی خوش نظر آرہی ہیں کیوں کہ اس میں انہیں سفیر تھامس گرین فیلڈ سے ایک سوال کرنے کا موقع ملا۔ وہ اپنے اس تجربہ کو خاص طور پر بہت خوشگوار بتاتی ہیں کیوں کہ انہیں دنیا بھر سے آئے شرکا سے اپنی بات کہنے کا موقع ملا۔ ساتھ ہی ان کو ان مسائل کا بھی ادراک ہوا جن کا سامنا ہر جگہ نوجوان قائدین عام طور پر کرتے ہیں۔سین اور گیتانجلی کی کوششوں سے ضرورت مندوں کے مسائل اجاگر ہوتے ہیں۔ ان میں طبقات کے نوجوان قائدین بھی شامل ہیں جن میں ان کی تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ ان کی کاوشوں سے بھارت کی جمہوریت کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور وہ پرجوش ہوتی ہے۔ سین بتاتی ہیں میرا ماننا ہے کہ ایک فعال اور مضبوط جمہوری نظام کےلیے تمام شہریوں اوررہنے والوں کی شرکت لازمی ہے۔ مگربہرحال آج اور آئندہ کل کی دنیا تعمیر کرنے میں نوجوانوں کا ایک اہم اور منفرد کردار ہے۔ بھارت اور پوری دنیا میں نوجوان ہی اہم مسائل پر تحریکوں کی قیادت کررہے ہیں اور جمہوری نظاموں کو جواب دہ ٹھہرارہے ہیں۔ جب تک کہ ان نوجوان قائدین کی آوازوں کو سنا نہیں جائے گا، ان کی حمایت نہیں کی جائے گی، ان کو بڑھایا نہیں جائے گا اس وقت تک جمہوریت با معنی یا مجموعی نہیں ہو پائے گی۔‘‘

گیتانجلی بھی اس سے متفق نظر آتی ہیں ۔ ان کا بھی ماننا ہے کہ نوجوان ہی تبدیلی کے ضامن ہو سکتے ہیں ۔ ان کے مطابق نوجوان’’ایک ایسے دھڑکتے دل کی مانند ہیں جو ملک میں زندگی کی رمق دیتے ہیں اور یہی لوگ جمہوریت کے دیگر شعبوں کو جوابدہ بنانے کی قوت رکھتے ہیں ۔ انہیں کی بدولت ہم ایک بہتر مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں ۔ بھارت کے نوجوان سین اور گیتانجلی کی مثالوں سے فائدہ اٹھا کر دوسروں کی مدد بھی کرسکتے ہیں۔ ‘‘

دل و دماغ کو بیک وقت بروئے کار لا کر تمام رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکتا ہے۔ سب میں محبت ، رحم دلی اور تبدیلی کے جذبات ہوتے ہیں ۔ ہم اپنے وسائل کا استعمال کرکے اس دنیا کو رہنے کے لیے ایک بہتر مقام بنا سکتے ہیں۔

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں ۔ وہ نیو یارک سٹی میں مقیم ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے