شمالی بھارت میں خواتین کاروباری پیشہ ور نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کی امداد یافتہ پہل سے فیضیاب ہو رہی ہیں۔
September 2021
نارتھ انڈیا آفس نے شی ولوگس نامی ایک دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ اس کا مقصد چنڈی گڑھ میں خواتین کاروباری پیشہ وروں کو با اختیار بنانے کے ساتھ انہیں اس قابل کرنا تھا کہ وہ اپنی تجارتی حکمت عملی کی برانڈنگ کے لیے ۶۰ سکنڈ کے ویڈیو بنا سکیں۔تصویر بشکریہ @یو ایس انڈیا /ٹوئیٹر
ایک ابتدائی خیال سے آغاز کرکے اپنے دم پر منحصر کاروبار کی شکل سازی یقیناً ایک انتہائی دقت طلب امر ہے۔ اس عمل کے دوران ملنے والی چھوٹی سی بھی مدد کامیابی اور ناکامی کے درمیان بہت بڑا فرق پیدا کرسکتی ہے۔یہ بات خواتین کاروباری پیشہ وروں پر خاص طور پر صادق آتی ہے۔۲۰۲۰ء میں جاری کیا گیا ماسٹرکارڈ انڈیکس برائے خواتین کاروباری پیشہ ور کے مطابق بھارت کے کُل کاروباریوں کا محض ۲سے ۵ فی صد ہی خاتون کاروباری پیشہ وروں پر مشتمل ہے۔
اس مسئلہ کی سنگین نوعیت کو سمجھتے ہوئے نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے شمالی ہند دفتر (این آئی او )نےاپنے اقدامات کے تحت مالی امداد کی ضمانت دی تاکہ اس خطہ میں خواتین کاروباری پیشہ وروں کو فروغ دیا جا سکے۔
ان مختلف النوع اقدامات کے فیض یافتگان میں سے ایک اُدے پور میں واقع اَنجیرس انڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ کی شریک بانی کُنج پریت اروڑا بھی ہیں ۔ ان کی کمپنی ماحول دوست فضلہ کے انصرام سے متعلق ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکرصد فی صد تعمیری فضلہ سے اینٹ اور روڑی جمانے والے بلاک بناتی ہے۔
کُنج پریت اروڑا ان سو خواتین کاروباری پیشہ وروں میں شامل تھیں جنہوں نے ۴ مجازی ورکشاپ میں شرکت کی۔ مذکورہ ورکشاپ بازار کاری اور مصنوعات کی قیمت کے تعین سے متعلق حکمت عملی بنانے، مالی انتظام و انصرام اور ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیےلائحہ عمل تحریر کرنے سے متعلق تھیں۔ در اصل یہ ورکشاپ راجستھان کے خواتین کاروباری پیشہ وری پروگرام کا حصہ تھے جنہیں تجارت اور اختراع سے متعلق اتحاد (اے سی آئی آر ) اور نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب نے پیش کیا تھا۔ان ورکشاپ کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اروڑا کہتی ہیں ’’ اس پروگرام سے مجھے اپنے ہدفی بازار کا دائرہ مزید چھوٹا کرنے میں کافی مدد ملی جس کی بدولت میں ایک مناسب طبقہ جسے میں ’ساحلِ سمندر‘سے تعبیر کرتی ہوں سے شروعات کر پائی۔ان سیشنوں اور مشقوں کے ذریعے سے مجھے اپنے سامعین کے ساتھ گفت وشنید کا موقع ملا جس سے مجھےیہ سمجھنے میں آسانی ہوئی کہ میری مصنوعات بازار کی ضرورتوں کو کس طرح پورا کر سکتی ہیں۔‘‘ اس پروگرام نے شرکاء کو اپنی تحقیق کے نتائج کو قابل عمل تجارت میں تبدیل کرنے میں مدد کی۔
جے پور میں واقع نوخیز کمپنی بایو سالو اننوویشنس پرائیویٹ لمیٹیڈ کی بانی موسومی دیبناتھ کہتی ہیں ’’ نیکسَس اور اے سی آئی آر پروگراموں نے درحقیقت میری آنکھیں کھول دیں کیوں کہ مجھے ان سے کاروبار کے ہر مرحلے کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوئی۔ تربیت کے دوران مجھے جو رہنمائی حاصل ہوئی وہ میرے کاروباری سفر میں نہایت کار گر ثابت ہوئی۔‘‘ ان کی کمپنی کی صحت سے متعلق دیکھ بھال اور علم حیاتیات کے میدان میں بایو ٹیکنالوجی مصنوعات اور عملیات فراہم کرتی ہے۔
جن خواتین نے ان ورکشاپوں میں شرکت کی وہ ورکشاپ ختم ہونے کے بعد بھی ایک دوسرے کے رابطے میں ہیں۔غیر منافع بخش تنظیم اے سی آئی آر (جس کا مقصد معاشی ترقی اور نشوونما کو فروغ دینا ہے)کے بانی اور صدر ایرک ایزولائی کہتے ہیں’’ ان ورکشاپوں کا اثر ان کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو جاتا۔ بلکہ اے سی آئی آرکے خواتین پروگرام میں ایک بہت ہی اہم عنصر پروگرام ختم ہونے کے بعد آن لائن طبقات کے ذریعہ سے مدد بھی ہے۔ اپنی ہم پلہ خواتین کاروباریوں کے متعلق بیداری اور ان سے تعلقات ہی ان کی لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ انہیں سے ان کو باور ہوتا ہے کہ وہ اکیلی نہیں ہیں۔ اوریہ ایک پائیدار برادری کی تشکیل کی جانب پہلا قدم ہے۔‘‘
خواتین کاروباریوں نے ان ورکشاپوں میں اپنی فرم کو فروغ دینے سے متعلق ایک منٹ کا ویڈیو بنانا بھی سیکھا۔ امریکی وزارت خارجہ سے مالی امداد یافتہ ان ورکشاپس کا انعقاد کیلیفورنیا میں واقع سین فائر فاؤنڈیشن نے چنئی، حیدرآباد، کولکاتہ اور ممبئی میں کیا۔ سین فائر کے بانی اور سی ای او کرسٹوف اے گائزلر انکشاف کرتے ہیں ’’ہم نے پایا کہ طلبہ ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں اور ان کے اندر سیکھنے کی طلب ہے ۔ شمالی بھارت میں ایک منٹ اکیڈمی کے اختتام کے بعد خواتین کاروباری پیشہ وروں نے وہاٹس ایپ گروپ میں ۷ روزہ لو گنگ چیلنج کا اہتمام کیا۔ اس میں مدر ڈے پر بنایا گیا ایک ویڈیو یو ٹیوب پر خوب وائرل ہوا۔ اس سے ہمیں بے انتہا مسرت ہوئی اور یقیناً اس سے ہمارے اثر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی ورکشاپوں اور آن لائن فورموں سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ شرکاء طبع زاد ویڈیو بنا پاتے ہیں بلکہ ان کی تدوین بھی خود ہی کرتے ہیں ۔ مثبت سماجی اصلاحات کو تقویت پہنچاتے ہیں اور بنیادی سطح پر مستند بیانیہ کا آغاز کر پاتے ہیں ۔‘‘
اکیڈمی برائے خواتین کاروباری پیشہ ور(اے ڈبلیو ای) ایک اور پروگرام ہے جس نے شمسی توانائی کی کمپنی تھنک را انڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ کو اپنے خاص مقاصد پر توجہ مرکوز کرنے میں پیش بہا خدمات انجام دیں۔ اے ڈبلیو ای اس وقت دنیا کے۵۰ سے زائد ممالک میں سرگرم عمل ہے۔ اسے شمالی بھارت میں این آئی او نے نافذ کیا۔ اس کی مالی امداد امریکی وزارت خارجہ کا بیورو برائے تعلیمی اور ثقافتی امور کررہا ہے۔
تھنک را انڈیا کی شریک بانی امرتا جگت دیو کہتی ہیں ’’ ہمارا مقصد جدید ترین شمسی اور انٹرنیٹ آف تھنگس ٹیکنالوجی کو دور دراز علاقوں تک پہنچانا ہے تاکہ اسے کا شت کاروں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ ہمارا مقصدآسان حل پیش کرنا ہے تاکہ خواتین کاروباری پیشہ ور زرعی کھیتی ، ماہی گیری اور جھینگا گیری کے میدان میں آگے آئیں۔ اس پروگرام کی مدد سے ہدفی بازار اور آمدنی کے طریقوں کو حتمی شکل دینے میں آسان ہوئی۔ اس سے ہم سرمایہ کاروں کے رابطہ میں آئے تاکہ مصنوعات کو بازار کی ضروریات کے مطابق تیار کرنے کے لیے درکار مالیات حاصل کی جا سکیں۔‘‘
امریکی وزارت خارجہ کے اقدامات کا مطمح نظر صرف کاروباری پیشہ وروں کے فوری مقاصد ہی نہیں ہیں بلکہ وہ خواتین شرکاء کو مستقل طورپر ترغیب دیتے رہتے ہیں کہ وہ کام کرتی رہیں اور جو انہوں نے جوسیکھا ہے اسے دوسروں کو بھی سکھائیں۔‘‘
این آئی او کی افسر برائے عوامی سفارت کاری کیتھرین فشر وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’شمالی ہند آفس کاقیام تقریباًنصف عشرے قبل عمل میں آیا۔ قیا م کے زمانے ہی سے وہ خواتین کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ خواتین تجارتی رہنماؤں نے امریکی سفارت خانہ کی ورکشاپوں میں شرکت کی ہے جن میں کاروبار کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی گئی ۔ ہر ورکشاپ نے ایک ایک کاروباری کے مسائل کا حل نکالا اور دوسروں کو بھی ترغیب دی کہ وہ خواتین کاروباری پیشہ وروں کی مدد کوآگے آئیں۔کاروباری پیشہ وروں کے اصل معنی ہیں کہ آگے بڑھتے رہنا ہے ۔ گو کہ ہر ورک شاپ کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے مگر بہر حال ہم خواتین کو ترغیب دیتے رہیں گے کہ وہ کوشش جاری رکھیں اور آگے بڑھتی رہیں۔ اور پھر فیض یاب ہونے کے بعد دوسروں کو بھی راہ دکھلائیں۔‘‘ فشر کا ماننا ہے کہ ان اقدامات سے طویل عرصے سے بے توجہی کا شکارقدرتی وسائل کو استعمال کرنے کا ہنر آیا ہے۔
فشر مزید کہتی ہیں ’’ویسے تو خواتین کئی معنوں میں بنیادی طور پر کاروباری پیشہ ور ہیں مگر اس حقیقت کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ ہر روز دنیا بھر میں خواتین اپنے مقاصد پانے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرتی ہیں۔ خواتین کاروبار ی پیشہ وری سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ گھر کی چار دیواری میں ہو رہا ہے اسے باہر بازار میں لایا جائے اور پھر اس سے پیسہ کمایا جائے۔ آخر کار اب دنیا خودمشاہدہ کر رہی ہے۔ اور جو اقدار خواتین پیش کررہی ہیں ان کی پذیرائی بھی ہو رہی ہے۔‘‘
اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِنچورا میں مقیم ایک آزاد پیش قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگا ر ہیں۔
تبصرہ