ایک منفرد سودمند تجربہ

ہندی بولنے والوں کے ساتھ بہتر گفتگو کی خواہش نے صوفیہ انگلینڈ اور وشال رامولا کو بوسٹن یونیورسٹی میں چار سمسٹرتک زبان سیکھنے کی تحریک دی۔

صوفیہ انگلینڈ اور وشال رامولا

ایک منفرد سودمند تجربہ

بوسٹن یونیورسٹی(اوپر) طلبہ کو ہندی اور اردو سمیت ایک درجن سے زیادہ زبانوں میں تجزیاتی اور تحریری ہنرمندیوں سے متصف کرنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ کام یونیورسٹی کا عالمی زبانوں اور ادب کا شعبہ کرتا ہے۔ (تصویر از اسکائی اسٹوڈیو©شٹراسٹاک ڈاٹ کام)

بوسٹن یونیورسٹی کا  عالمی زبانوں اور ادبیات کا شعبہ ہندی اور اردو سمیت متعدد زبانوں میں گفتگو    پر مبنی ہدایات کی  پیش کش کرتا ہے۔ شعبہ کے اسکالرس ایک درجن سے زائد زبانوں میں ادب، فلم اور میڈیا کلچر کے بارے میں تدریس اور تحقیق میں مصروف ہیں۔یونیورسٹی میں ہندی زبان کے پروگرام  کے بارے میں دو سابق طالبات کے تجربات ملاحظہ کریں۔

صوفیہ انگلینڈ

Sophia England (second from right) with other students of the Hindi language program at Boston University. (Photograph courtesy Sophia England)

صوفیہ انگلینڈ(دائیں سے دوسری) بوسٹن یونیورسٹی کے ہندی زبانوں کے پروگرام کے دیگر طلبہ کے ساتھ۔(تصویر بشکریہ صوفیہ انگلینڈ)

ایک کالج کی طالبہ  کے طور پر جس نے ۲۰۲۰ءسے ۲۰۲۳ء تک ہندی سیکھنے کا سفر شروع کیا، میرا تجربہ تبدیلی سے کم نہیں رہا۔ ہندی پروگرام میں داخلہ لینے کا میرا فیصلہ اپنے ثقافتی ورثے سے جڑنے کی خواہش اور دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی بولی جانے والی زبان کی دریافت کرنے   کی خواہش پر مبنی تھا۔

ہندی سیکھنے کے ابتدائی مراحل دلچسپ اور چیلنجنگ دونوں تھے۔ میں نے خود کو دیوناگری رسم الخط کی دنیا میں غرق پایا، جہاں ہر منحنی خط  ایک ایسا مطلب بیان کرتا ہے جو میرے لیے بالکل نیا تھا۔ قواعد  کی پیچیدگیوں  سے بھی بہت زیادہ مشکلات درپیش ہوئیں۔  لیکن یہ بالکل وہی چیلنجز  تھے جنہوں نے میرے عزم کو تقویت  بخشی ۔ میں نے جلدہی سمجھ لیا کہ   زندگی کی طرح ہی   زبان سیکھنے میں  استقامت کلیدی حیثیت کا حامل  ہے۔

ہندی کے مستقبل کے  طلبہ کو میں جو    بیش قیمتی صلاح دے سکتی ہوں  ان میں سے ایک   یہ ہے کہ وہ زبان اور ثقافت میں پوری طرح غرق ہو جائیں۔ کلاس روم سے ہٹ کر، میں نے بولنے کی مشق کرنے کے لیے کنبے کے ارکان   کو زبان کے ساتھی کے طور پر تلاش کیا۔ میں نے  زبان سیکھنے کی ایپس، آن لائن وسائل  اور دلکش ہندی ادب اور سنیما کے ساتھ  اپنے رسمی کورس ورک کو  پورا کیا۔

میرے  معلّم کے  ذریعہ استعمال کردہ تدریسی طریقہ کار میرے ہندی زبان کے سفر میں ایک اہم عنصر تھا۔ تفاعلی کلاسز، ثقافتی سرگرمیوں ، کمیونٹی کی تعمیر کی مشقیں اور لینگویج لیب نے مجھے نہ صرف زبان کو سمجھنے میں مدد کی بلکہ ہندوستانی ثقافت کے وسیع تر تناظر کو بھی سراہنے میں معاون رہا ۔ ایک تجربہ  کار معلّم کی رہنمائی نے مجھے قیمتی بصیرت اور مدد فراہم کی، جس سے سیکھنے کے عمل کو خوشگوار اور بھرپور بنایا گیا۔

مزید برآں، زبان  کی مشق کرنے  کا موقع میری ترقی میں اہم  رول ادا کرتا تھا۔ ہندی بولنے والی  برادریوں کے ساتھ مشغول ہونے، ثقافتی تقریبات میں حصہ لینے اور آن لائن زبان کے تبادلے کے پلیٹ فارموں کی دریافت سے  میں نے  حقیقی زندگی کے حالات میں جو کچھ سیکھا ہے، اسے نافذ کرنے میں مدد ملی ۔ اس سے نہ صرف میری زبان کی مہارت میں اضافہ ہوا بلکہ ہندی زبان کے ساتھ ثقافتی باریکیوں کے بارے میں بھی میری  فہم میں زبردست  اضافہ ہوا۔

ماضی میں دیکھا جائے تو ہندی سیکھنے کا میرا سفر فائدہ مند رہا ہے۔ اس نے میری ثقافتی جڑوں سے جڑنے سے لے کر نئی دوستیاں  استوار کرنے  تک  تجربات کی دنیا کے دروازے کھول دیے ہیں۔ میرا مقصد اپنی جڑوں سے زیادہ قریب سے جڑا محسوس کرنا تھا  اور اس زبان کو سیکھنے نے میری زندگی کو بے شمار طریقوں سے مالا مال کیا ہے۔ اس نے مجھے ایک عالمی برادری کو دریافت کرنے، اس کی ستائش  کرنے اور اس  کا تعاون کرنے  کی صلاحیت دی ہے جو لسانی اور ثقافتی تنوع کی فراوانی کو اہمیت دیتی ہے۔

وشال رامولا

وشال رامولا(آگے کی صف میں بائیں)بوسٹن یونیورسٹی کے ہندی زبان کے پروگرام کے طلبہ کے ساتھ۔(تصویر بشکریہ وشال رامولا)

میں نے ۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۱ء تک ہندی زبان کے پروگرام کی سینئر لیکچرر شلپا پرنامی کی زیر قیادت  ہندی پروگرام میں حصہ لیا۔  ہندی سیکھنے کے لیے  میرا کنبہ میری پہلی تحریک ہے۔ میرے پاس ہندوستان میں ان سے ملاقات  کی بہت سی یادیں وابستہ  ہیں، ایسے دورے  ہیں جہاں   میں نے اپنے  چہیتوں کے ساتھ وقت گزارا اور ملک کی حیرت انگیز ثقافت اور تاریخ سے لطف اندوز ہوئی ۔ میں ہمیشہ سے ان لوگوں کے ساتھ بہتر طور پر بات چیت کرنے کے قابل ہونا چاہتی ہوں  جن سے میں وہاں ملتی  ہوں اور اپنے کنبے  کے ان افراد کے ساتھ جن سے میں انگریزی میں بات نہیں کر سکتی   اور یہی چیز مجھے ہندی پڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔

ہندی سیکھنا ایک منفرد  فائدہ مند تجربہ تھا۔ زبان سیکھتے وقت کچھ بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اپنے پہلے سمسٹر کے آغاز میں  سب سے بنیادی الفاظ اور قواعدی   ڈھانچے جو میں نے  سیکھے تھے وہی میرے   دوسرے سال کی   تعلیم  کے اختتام پر بھی موزوں  رہے۔ یہ قابل قدر ہے کیونکہ مجھے  مسلسل مشق کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ ایک  طویل عرصے تک اپنی صلاحیتوں کو برقرار رکھ کر میں  اپنی آموزش   میں فعال  رول  ادا کروں۔

ہندی سیکھتے وقت ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ یہ مختلف سیاق و سباق اور میڈیا میں موجود ہے۔ میں اکثر کلاس میں کسی خاص موضوع کے بارے میں بات کرنے میں پراعتماد محسوس  کرنے لگتی ہوں ، لیکن جب میں نے اپنے گھر والوں سے بات کرنے کی کوشش کی یا جب میں ٹی وی پر لوگوں کو انہی چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنتی   تو اسے سمجھنا مشکل ہو تا۔

میں مستقبل کے طلبہ کو  صلاح دوں گی  کہ وہ کلاس سے باہر زیادہ سے زیادہ ہندی کے ساتھ مشغول ہونے کی کوشش کریں۔ آپ کلاس سے باہر کس طرح  مشق کرتے  ہیں یہ آپ کی کلاس میں پڑھائی جانے والی چیزوں کی ایک اہم تکمیل ہے۔ مختلف لوگوں سے بات کرنے اور مختلف ذرائع ابلاغ کا استعمال آپ کو بولنے کے مختلف طریقوں سے روشناس کرائے گا، جو مختلف حالات میں ہندی کے استعمال میں زیادہ  مطمئن ہونے  کے لیے ضروری ہے۔

میری معلّمہ  ڈاکٹر پرنامی  کلاس میں اکثر وبیشتر استعمال ہونے والی بات چیت کی زبان پڑھاتی تھیں۔  یہ خاص طور پر مددگار تھا کیونکہ، جیسا کہ میں نے نئے الفاظ اور قواعد سیکھی، اس نے مجھے ہندی میں صحیح معنوں میں سوچنے کی مشق کرنے میں مدد کی اور نہ صرف میکانکی طور پر ہندی سے انگریزی میں ترجمہ کرنے یا گرامر کے اصولوں کو آنکھ بند کرکے لاگو کرنے میں مدد کی۔ بات چیت میں جو کچھ ہم نے سیکھا اسے  منطبق کرنا بھی بیش قیمت  تھا کیونکہ اس  سے  مجھے بولنے کی مشق کرنے کی ترغیب ملی  یہاں تک کہ جب میں نئے موضوعات سے پوری طرح مطمئن نہیں تھی ، جو کہ کلاس روم سے باہر ہندی کے استعمال کے لیے مفید تیاری تھی۔

صوفیہ انگلینڈ اور وشال رامولا بوسٹن یونیورسٹی کے ہندی زبان کے پروگرام کی سابق طالبات ہیں۔  


اسپَین نیوزلیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے