خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ممنوع چیزوں پر ضرب

یو ایس ایڈ کاحمایت یافتہ پروگرام نوجوانوں کو مانع حمل کے بارے میں آزادانہ بات چیت کرنے اور ان لوگوں تک مانع حمل اشیا ء کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے بااختیارکر رہا ہے جن کو اس کی ضرورت ہے۔

برٹن بولاگ

اگست ۲۰۲۳

خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ممنوع چیزوں پر ضرب

’دہلی لرننگ لیب‘ کے رضاکار ماہوار، جنسی صحت، جسمانی تعلق کے لیے رضامندی، خاندانی مںصوبہ بندی اور محفوظ جنسی تعلق سے متعلق چھوٹے ڈراموں کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ نوجوانوں کو بیدار کیا جاسکے۔ تصویر بشکریہ ریسٹ لیس ڈیولپمنٹ۔

نئی دہلی کے دکشن پوری علاقے  میں ایک مصروف ترین سڑک پر واقع ایک کیمونٹی سینٹر سے چلنے والا ایک شاندار پروجیکٹ نوجوانوں کو اپنی جنسی اور تولیدی صحت کا  کنڑول سنبھالنے کے لیے با اختیار بنا رہا ہے۔

امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی مالی امداد سے ’دہلی لرننگ لیب ‘ نوجوانوں کی تربیت کا باعث بن رہا ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں اور ہم عمر لوگوں سے مناسب اور تولیدی صحت، مانع حمل اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کے بارے میں بات کریں۔ اس پروگرام کے شرکاء’یوتھ چیمپئن ‘ کہلاتے ہیں جو  اپنے علاقے  کے دوا خانوں اور طبّی مراکز میں جاتے ہیں اور ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ نوجوانوں کو مانع حمل  اشیاءکی خدمات فراہم کریں ، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ  ہوں یا پھر ان کا تعلق صنف خاص یا پھر معذور افراد جیسےپسماندہ طبقات  سے ہو۔

شجر ممنوعہ کا استعمال

اکثر مبصرین کا دعویٰ ہے کہ قدامت پسندانہ سوچ کی وجہ سے اکثر  دواخانے اور طبّی مراکز مانع حمل اشیاء صرف شادی شدہ افراد کو ہی فراہم کرتے ہیں۔

’ریسٹ لیس ڈیولپمنٹ ‘ کے انڈیا چیپٹر کے سربراہ نول کشور گپتا جو دہلی لرننگ لیب چلاتے ہیں ، کہتے ہیں کہ نوجوانوں خاص طور پر خواتین اور دوشیزاؤں کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے جب  کبھی وہ ان چیزوں کے لیے دواخانوں کا رخ کرتے ہیں۔ ’ریسٹ لیس ڈیولپمنٹ ‘دنیا بھر کے ۷۴ ممالک میں نوجوانوں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

گپتا مزید کہتے ہیں ’’بھارت میں جنسی اور تولیدی طبّی خدمات کی کافی مانگ ہے مگر ان کوشجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم نوجوانوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ یہ خدمات آپ کا حق ہیں اور آپ ان کا بجا طور پر مطالبہ کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہم والدین، مقامی برادریوں، حکام، سِول سوسائٹیوں ، مذہبی قائدین اور نوجوانوں کی تنظیموں کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں جس کے سبب خاندانوں اورطبقات میں خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔‘‘

محفوظ مقامات درکار

دہلی لرننگ لیب سے اب تک ۲۰ یوتھ چیمپئن تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ یوتھ چیمپئن دکشن پوری میں اپنے ہم عمروں کو ’’آن سائٹ‘‘ اور گھر گھر جا کر بھی جنسی اور تولیدی صحت کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ دوا خانوں اور طبّی مراکز بھی جا کر معلوم کرتے ہیں کہ آیا یہ لوگ نوجوانوں کو مانع حمل اشیاء اور ادویات فراہم کرتے ہیں یا نہیں۔ اور اگر نہیں تو یہ یوتھ چیمپئن ان کو نو عمری میں مانع حمل کی ضرورت کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کرتے ہیں۔

۲۰ سالہ یوتھ چیمپئن پوجا جو کہ پولیس محکمہ میں ملازمت کرنا چاہتی ہیں بتاتی ہیں ’’اکثر نوجوان مانع حمل اور محفوظ جنسی تعلق کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ تاہم ان چیمپئنس کو بعض اوقات مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، خاص طور پر والدین کی طرف سے۔ ’’بعض طعنہ کستے ہوئے کہتے ہیں کہ تم ایسے موضوعات پر کیوں بات کر رہے ہو؟ جاؤ اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ یہ کہہ کر دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔‘‘

پوجا مزید بتاتی ہیں کہ جب نوجوان لڑکے لڑکیاں دواؤں کی دوکان یا طبّی مراکز پر مانع حمل اشیاء اور ادویات مانگتے ہیں تو یہ لوگ ’’اکثر منع کر دیتے ہیں بلکہ انہیں نصیحت کرنے لگتے ہیں کہ جاؤ اپنے ماں باپ کے ساتھ آؤ۔‘‘

ایک اور یوتھ چیمپئن پیوش سانوریا، جو کہ یونیورسٹی فاصلاتی تعلیم کے پہلے سال کے طالب علم ہیں اور خود کو نان بائنری (ایسے افراد جن کی جنسی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں)کہلوانا پسند کرتے ہیں،  کہتے ہیں کہ جن لوگوں سے وہ بات کرتے ہیں ان میں سے ’’اکثر کو تو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے، حالانکہ نوجوان طبقہ زیادہ متجسس نظر آتا ہے۔‘‘

تعلیم دینا اور با اختیار بنانا

ایک طریقہ کار جو یہ یوتھ چیمپئن اپناتے ہیں وہ یہ کہ یہ لوگ اپنے آس پاس کے علاقوں میں جا کر ماہواری، رضامندی، خاندانی منصوبہ بندی اور محفوظ جنسی عمل جیسے موضوعات پر مختصر اسٹیج ڈرامہ پیش کرتے ہیں۔ ۱۹ سالہ یوتھ چیمپئن ریکھا جو پوجا کی طرح ہی محکمہ پولس میں ملازمت کرنے کی خواہاں ہیں ،کہتی ہیں ’’پہلے ہم انہیں موضوع کے متعلق بتاتے ہیں اور پھر مختصر اسٹیج ڈرامہ پیش کرتے ہیں۔ آخر میں ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے اس سے کیا سمجھا اور کیا سیکھا۔‘‘

ایک حالیہ ڈرامے میں ہم نے دکھایا کہ کس طرح ایک نو شادی شدہ جوڑے پر ان کی برادری نے فوراً بچے پیدا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ مگر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا وہ اس وقت تک بچہ پیدا نہیں کریں گے جب تک کہ وہ مالی اور جذباتی طور پر خود کو اس کے لیے تیار نہیں کر لیتے۔ بلکہ نئی دلہن تو اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے۔ انہوں نے مختلف مانع حمل اشیاء  کے بارے میں بھی  آپس میں بات چیت کی۔

۲۷ سالہ روشنی جو کہ معذور افراد کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں اور ایک یوتھ چمپئن ہیں کہتی ہیں کہ اس منصوبے کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ ’’ہم واقعتاً تبدیلی لانے میں کا میاب ہو رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے نوجوان ہم سے مزید ایسے اجلاس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بلکہ اب تو والدین بھی اپنے بچوں کو ہمارے مرکز میں ان موضوعات پر معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجنے لگے ہیں۔‘‘

مستقبل کا نقشہ

دہلی لرننگ لیب ۴۰۰ نوجوان’چینج میکرس ‘ کو تربیت دے رہی ہے جوطبقات میں بیداری پیدا کرنے میں یوتھ چیمپئن کا ہاتھ بٹائیں گے۔ اس کا ہدف ۱۵ سے ۲۹ سال کی عمر کے کم از کم دس ہزار تک پہنچنا اور ان کے ساتھ مشغول ہونا ہے۔ اسی قسم کے پروگرام آسام، جھارکھنڈ، اڈیشہ، چھتیس گڑھ، اور مدھیہ پردیش میں بھی چل رہے ہیں۔ ان کا مقصد نو عمر اور نوجوانوں کے اندر تولیدی صحت اور بہبود کے معاملوں میں خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ دراصل یہ یو ایس ایڈ سے مالی امداد یافتہ اقدامات جیسے مومنٹم کنٹری اور گلوبل لیڈرشپ: انڈیا یش کا حصہ ہیں۔

برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم آزاد صحافی ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے