تشدد کا سلسلہ توڑنا

ذرائع ابلاغ ، فنونِ لطیفہ اور تکنیک کے ہنر مندانہ استعمال کے ذریعہ ’بریک تھرو‘ نامی تنظیم مروجہ ثقافت کو تبدیل کرنے اور خواتین اور لڑکیوں کی قدر و قیمت کے برملا اظہار کی سمت میں کام کر رہی ہے۔

اسٹیو فاکس

December 2021

تشدد کا سلسلہ توڑنا

تبو نے  اپنے اسکول میں ہوئے ایک پلے سے تحریک پاکر ، جس کا انعقاد بریک تھرو  کی ’کم سنی کی شادی کے خلاف قوم‘ مہم کے حصے کے طور پر کیا گیا تھا، اپنی بہن کی کم سنی کی شادی کو روکنے کے لیے مداخلت کی۔  وہ اب اپنے گاؤں کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ مل کر اس قسم کا مہمات کا حصہ بنتی ہے۔ تصویر بشکریہ بریک تھرو۔

اترپردیش میں  جون پور ضلع کے مُریلا پور گاؤں کی لڑکیاں بس کرکٹ کھیلنا چاہ رہی تھیں، وہ بھارت میں ثقافتی رویوں کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی تھیں ۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ مُریلا پور سمیت بھارت کے بیشتر حصوں میں کرکٹ کو ’’مردوں کا کھیل‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باپ، بھائی اور یہاں تک کہ بعض ماؤں نے بھی اپنی مخالفت کویہ کہہ کر بالکل واضح کر دیا کہ یہ چیزیں  مروجہ سماجی نظام کے لیے خطرہ ہیں۔ کچھ لڑکیوں کو دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن لڑکیوں اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کو معاشرے میں ناقابل قبول بنانے کے لیے کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم  بریک تھرو کی مدد سے انہیں اس میں کامیابی مل گئی۔

بریک تھرو انڈیا کی چیف ایکزیکٹو افسر سوہنی بھٹاچاریہ کہتی ہیں’’اس علاقے میں رہنے والی نوجوان لڑکیاں ملک بھر کی دیگر لڑکیوں سے مختلف نہیں تھیں، سوائے ایک پہلو کے۔انہیں کرکٹ کھیلنے میں پیدائشی دلچسپی تھی۔ بدقسمتی سے انہیں ’مردوں کے اس کھیل‘ میں شامل ہونے کے لیے صنفی امتیاز، جنسی رویوں اور سماجی رکاوٹوں کو برداشت کرنا پڑا۔ تاہم ان لڑکیوں نے ان تمام رکاوٹوں پر قابو پا لیا اورموجودہ صورتحال کو چیلنج کرکے ایک تبدیلی لانے والی تحریک کا  آغاز کیا۔‘‘

مُریلا پور میں لڑکیوں کو بریک تھرو کے ایک نمائندے سے کافی مدد ملی جو گھرگھر گئی  (بعض جگہ تو  اس کی بات سنے بغیر دروازے بند کر دیے گئے) تاکہ لڑکیوں کے والدین کو انہیں  کرکٹ کھیلنے دینے کی اجازت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ یہ اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ اور ہریانہ میں نوعمروں کےلیے بریک تھرو کے بااختیاری پروگرام کا حصہ تھا جہاں خواتین کے خلاف جرائم اور کم عمری کی شادی ان کے لیے صنفی مساوات کی راہ میں دیرینہ رکاوٹیں ہیں۔

اگرچہ بریک تھرو  براہ راست  خواتین کی مدد کے لیے کام کرتی ہے  لیکن اس تنظیم کا حتمی مقصد خواتین کے اقدار کو کمتر کرنے والی ثقافت کو تبدیل کرنا ہے۔ اس کے لیے معاشرے کی ہر سطح پر لاکھوں لوگوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے جسے  بریک تھرو ذرائع ابلاغ،فنونِ لطیفہ اورتکنیک کے ہنر مندانہ استعمال کے ذریعہ انجام دیتی  ہے ۔

بریک تھرو کی سی ای او سوہنی بھٹا چاریہ۔ تصویر بشکریہ بریک تھرو۔

بھٹاچاریہ کہتی ہیں ’’ہماری تمام مہموں اور سرگرمیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تئیں لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے شروع سے ہی ایک ایسی زبان میں ڈیزائن اورتیار کیا گیا ہے جن سے وہ خود کو  وابستہ کرکے دیکھ سکتی ہیں۔ ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ معروف ثقافت  پیغام کو گھر تک پہنچانے اور لوگوں کو صنفی بنیاد پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے غیر دھمکی آمیز انداز میں آگاہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔‘‘

بریک تھرو کی حکمت عملی کی ایک ابتدائی اوربہتر مثال ۲۰۰۱ء میں منظر عام پر آئی   ایک انتہائی مقبول البم اور میوزک ویڈیو ’ من کے منجیرے:اَین البم آف وِمینس ڈریمس‘تھا۔ یہ البم اور ویڈیو ایک ایسی خاتون کی سچی کہانی سے متعلق قومی مہم کی بنیاد بن گیا جوتشدد سے پُر اپنی شادی شدہ زندگی سے باہرنکل کر اپنی اور اپنے بچے کی کفالت کے لیے ٹرک ڈرائیور بن گئی۔

بھٹاچاریہ کہتی ہیں ’’ہماری سب سے پہلی مہم، من کے منجیرے کی کامیابی نے ہمارے معاشرے میں مثبت اور پائیدار تبدیلی کے لیے معروف ثقافت کی طاقت اور صلاحیت پر ہمارے یقین کو مزید تقویت بخشی۔‘‘

ایک دیگرمہم، گھنٹی بجاؤ (رِنگ دی بیل) نے راہگیروں کو گھریلو تشدد کے معاملات میں مداخلت کرنے کی تحریک دی ۔ اس کا تعلق جرم کا ارتکاب کرنے والوں سے  براہ راست مقابلہ کرنے سے نہیں تھا جس سے مزید تشدد  کا خطرہ ہوسکتا تھا بلکہ گھنٹی بجانے جیسے آسان اقدامات کرکے رکاوٹ پیدا کرنے یا پڑوس کے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے تھا کہ وہ دیکھیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے ۔

بھٹاچاریہ کا کہنا ہے’’گھنٹی بجاؤ، بریک تھرو کی اب تک کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور پائیدار مہم ہے کیونکہ اس کا سب سے زیادہ اثر رہا ہے اور اس کی سب سے زیادہ وسعت رہی ہے ۔ اس کے علاوہ شراکت داروں کا اس میں سب سے جامع مجموعہ رہا ہے۔وہ کہتی ہیں ’’ یہ ثقافت اور ذرائع ابلاغ سے متعلق ایک مہم ہے جس میں مردوں اور لڑکوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی کوششوں میں شامل ہوں۔‘‘

اس مہم کا میڈیا سے متعلق حصہ  اس کی سب سے نمایاں  خصوصیت تھی یعنی  ٹیلی ویژن، ریڈیو اور پرنٹ اشتہارات کا ایک سلسلہ جس  کی تخلیق  اوگلوی اور  میتھر نے اعزازی طور پرکی تھی۔ خواتین و بہبود اطفال کی بھارتی وزارت کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے وسیع پیمانے پران کی تشہیر کی گئی تھی۔ چین، ویت نام، پاکستان اور کناڈا کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اس مہم پر کام کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے تواسے ایک اہم مہم کے طور پر اپنایا ۔ اس کوشش کے نتیجے میں بھارت میں گھریلو تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ سے متعلق قانون سے آگاہ افراد کی تعداد میں ۴۹ فی صد کا اضافہ ہوا اور بچ جانے والوں کے لیے خدمات تک رسائی میں ۱۵ فی صد کا اضافہ ہوا۔

۱۹۹۹ء میں قائم ہونے والی اور بنیادی طور پر مختلف فاؤنڈیشن کی مالی اعانت سے کام کرنے والی بریک تھرو  ۱۲۸ ملازمین اور نیو یارک سٹی اور نئی دہلی میں اپنے مراکز کے ساتھ ایک عالمی تنظیم بن گئی ہے۔ یہ دہلی، پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور جھارکھنڈ کی مختلف برادریوں کے ساتھ کام کرتی ہے۔ بریک تھرو کی فہرست میں وہ تنظیمیں بھی شامل ہیں جو سماجی اصولوں کو تبدیل کرنے کے تصور کا اشتراک کرتی ہیں اوران کے پیغام کو پھیلانے میں مدد کر سکتی ہیں۔

بھٹاچاریہ کا کہنا ہے ’’ہم لوگ ایک جانب میڈیا ہاؤسیز، ’اوور دی ٹاپ ویڈیو پلیٹ فارمز‘ اور فیشن انڈسٹری کے ساتھ شراکت داری کرتے ہیں تو دوسری طرف مقامی اور ریاستی سطح کی حکومت اور کثیر فریقی اور باہمی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ شراکت داری کرتے ہیں۔ہم لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے مسئلے کے تعلق سے کامیابی کا حصول اس لیے اہم ہے کیونکہ  جب تک لوگوں کی بڑی تعداد تشدد کو غیر قانونی قرار نہیں دیتی تب تک اصول تبدیل ہونا شروع نہیں ہوں گے۔‘‘

اگرچہ بریک تھرو ہر عمر کے لوگوں تک پہنچنے کے لیے  متعدد پروگراموں کا استعمال کرتی ہے لیکن یہ نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کرنے پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔

دسمبر ۲۰۲۰ء میں بریک تھرو نے دخل دو (مداخلت) کا آغاز کیا جو خاص طور سے ۱۹ سے ۲۵ سال کی عمر کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی خاطر راہگیروں سے متعلق مداخلت کی ایک مہم تھی  تاکہ وہ  خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے کام کر سکیں جب وہ اس کا مشاہدہ کریں خواہ وہ  اپنی زندگی میں ہو یا عوامی مقامات پر۔ اس مہم کا مقصد مثبت کارروائیوں سے متعلق کہانیوں کے ذریعے مداخلت کو ایک بہتر چیز قرار دینا ہے۔

بھٹاچاریہ کہتی ہیں ’’بریک تھرو کا خیال ہے کہ نوجوان ان صنفی اصولوں کو چیلنج کرکے معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہیں جو لڑکیوں اور خواتین کو لڑکوں اور مردوں کے مقابلے میں کم وقعت قراردینے میں، کم مواقع اور کم نمائندگی فراہم کرنے میں معاون ہیں۔ اب تک ہم نے  بریک تھرو میں ایک لاکھ افراد کو صنف، جنسیت اور انسانی حقوق کے معاملات کے تعلق سے تربیت دی ہے اور دس لاکھ سے زائد مردوں نے گھریلو تشدد کے خلاف عہد پر دستخط کیے ہیں۔ پورے ملک میں نوجوان اس مقصد میں شامل ہو رہے ہیں، بات چیت شروع کر رہے ہیں اور اس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

اسٹیوفاکس کیلیفورنیا کے ونچورا میں مقیم آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشراور نامہ نگار ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے