ہند ،ہندی اورکریئر کی دریافت

فلپ لٹجینڈورف بتاتے ہیں کہ امریکہ میں ہندوستانی زبانوں کو سیکھنے کے لیے اے آئی آئی ایس کے زبان دانی کے پروگرام ’طلائی معیار‘ کے پروگرام سمجھے جاتے ہیں۔

فلپ لٹجینڈورف

September 2023

ہند ،ہندی اورکریئر کی دریافت

ہندی شاعر اشوک واجپئی(بائیں سے) فلپ لٹجینڈورف اور ادبی ناقد ہریش تریویدی ۲۰۱۶ء کے جے پور ادبی میلے میں جہاں فلپ نے ’رام کا مہاکاویہ‘ نامی ترجمے کی پہلی جلد جاری کی۔ (تصویر بشکریہ بھارت تیواری/جے ایل ایف)

۱۹۷۸میں، میں شکاگو یونیورسٹی میں گریجویٹ کا طالب علم تھااور’انٹرمیڈیٹ ہندی‘ میں داخلہ لیا تھا۔ جب میں نے ایک سیّاح کے طور پر شمالی ہند کے کئی دورے کیے تو گویا مجھے اس خطے سے محبت ہوگئی ۔ مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ ہندی مختلف مقامی لوگوں سے گفت و شنید کے لیے اہم ہے۔ لیکن میں ہندی سیکھنے کی اپنی سست رفتاری سے مایوس ہوگیا تھا کیونکہ جس  معلّم سے ہفتے میں دو روز میں زبان دانی سیکھ رہا تھا وہ بنیادی طور پر انگریزی بولتے تھے۔

خوش قسمتی سے میں نے امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز (اے آئی آئی ایس) کے’انٹینسِو ایڈوانسڈ ہندی پروگرام‘ کے بارے میں سنا، جو اس وقت دہلی میں واقع تھا۔میں نے  اس کے لیے درخواست دی اور۸۰۔۱۹۷۹میں پورے تعلیمی سال کے لیے امریکہ کے محکمہ تعلیم کی طرف سے مالی امداد والے فیلوشپ سے نوازا گیا۔ یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ اس چیز نے میری زندگی بدل دی۔

ڈیفنس کالونی میں ہونے والی کلاسیں بہترین اور بنیادی طور پر ہندی میں تھیں، جو تین استانیوں نے پڑھائیں جو توانائی سے بھرپور، پُرجوش اور شہر کے ثقافتی منظر نامےجیسے آرٹ، تھیٹر، موسیقی اور رقص سے وابستہ تھیں۔ انہوں نے طلبہ کو الفاظ سیکھنے، متنوع متن پڑھنے، گفتگو اور بحث کی مشق کرنے، مضمون نویسی  یہاں تک کہ خریداری کرنے اور بس کے روٹ پر سفرکرنے میں مدد کی۔ وہ ہمیں دہلی کے تاریخی مقامات اور اس سے آگے جے پور، لکھنؤ اور بنارس کے دوروں پر لےگئیں۔ یہاں ہفتہ وار کھانا پکانے کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں جن کے لیے ہم ایک استانی کے ساتھ بازار میں سامان کی خریداری کرتے تھے  اور پھر ساتھ میں مل کرکھانا بناتے تھے جس کی ترکیب ہندی میں لکھی ہوتی تھی۔پھر ہم گروپ کے ساتھ اس کو شیئر کرتے تھے۔(چار دہائیوں کے بعد، میں اب بھی ان میں سے کچھ استعمال کرتا ہوں)۔ چونکہ میرے ساتھ میری بیوی اوردو سالہ بیٹی تھی، اس لیے کچھ تقریبات، خاص طور پر تہوار کے دنوں میں ہونے والی پارٹیاں خاندانی نوعیت کی ہوجاتی تھیں جو ہمارے لیے باعث مسرت تھا۔

اس تعلیمی سال  میں نے جو علم اور ہنرسیکھا اس نے میرےباقی گریجویٹ کی تعلیم  اور دوسال بعد میرے پی ایچ ڈی کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھی۔ میرا تحقیقی مقالہ ہندی رامائن میں روایات کا مظہر (گوسوامی تلسی داس،رام چرتر مانس) پر تھا جس کے دوران میرا خاندان (اب دو بچوں کے ساتھ) دو سال تک چھوٹے، ہندی بولنے والے شہروں میں رہا۔ اس کے نتیجے میں، ہندی ادب، لوک داستانوں اور سنیما پر میری بعد کی تحقیق اور اشاعتیں اور اپنے ۳۳؍ سالہ کریئرمیں آئیووا یونیورسٹی کے طلبہ کو ہندوستانی تاریخ اور ثقافت پر ہندی زبان اور کورسز کی تعلیم دے سکا۔

فطری طور پرمیں نے  زبان سیکھنے والے اپنے طلبہ کو امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیزپروگرام کے بارے میں بتایا جو آہستہ آہستہ تمام سطح کی ہندی زبان کی تعلیم کے لیے  پیش قدمی کرتےہوئے بنارس اور بعد میں جے پور منتقل ہو گیااور میرے کچھ بہترین طلبہ نے اس میں شمولیت اختیار کی اور ان کے اپنے زندگی بدلنے والے تجربات ہوئے۔

جیسا کہ یہ میرے وقت میں  اچھا تھا ، یہ پروگرام آنے والے سالوں میں اور بھی بہتر ہو گیا جب پروفیسر ہرمن وین اولفن (یونیورسٹی آف ٹیکساس) اور سریندر گمبھیر (یونیورسٹی آف پنسلوانیا) جو کہ دوسری زبان کے حصول کے ماہرین ہیں،وہ اے آئی آئی ایس لینگویج کمیٹی کے یکے بعد دیگرے سربراہ  بن گئے اور اساتذہ کو نئے آلات، ٹیکنالوجی اور زبان کی تدریس کے طریقوں سے آشنا کرنے کے لیے پیشہ ورانہ ترقی کی ورکشاپس کا انعقاد شروع کیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ  مجھے کمیٹی میں خدمات انجام دینے اور آخرکار پروفیسر گمبھیر کی جگہ سربراہ بننے کے لیے مدعو کیا گیا۔ کام کے ایک حصے میں گرمیوں اور تعلیمی سال کے دوران اے آئی آئی ایس زبان کے پروگراموں کے لیےسینٹر کا دورہ کرنا شامل تھا ( انسٹی ٹیوٹ صرف ہندی نہیں سکھاتا بلکہ ۱۵؍ سے زیادہ ہندوستانی زبانیں سکھاتا ہے، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں متعلقہ زبان بولی جاتی ہے) ۔ میں طلبہ اور اساتذہ کا انٹرویوکرتا ،مشورے لیتا، رپورٹیں لکھتا اور کبھی کبھار کھانا پکانے کی کلاسوں میں یا کم از کم کھانے میں شامل ہو تا۔ اس طرح کے سینٹر کے دوروں نے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کی کہ پروگرام زبان سیکھنے کے موجودہ نظریات، طلبہ کی ضروریات اور بھارت کی تیزی سے بدلتی ثقافت کی عکاسی کے لیےنشو ونما پاتا رہے۔

آج امریکہ نیز برطانیہ اور یورپ کی سرکردہ یونیورسٹیوں میں اے آئی آئی ایس لینگویج پروگراموں کو بجا طور پر ہندوستانی زبان کی تدریس میں سنہرا معیارسمجھا جاتا ہے اور ہندی پروگرام ہمیشہ ان میں سب سے بڑا اور مقبول رہا ہے۔ ہم نے یہ شہرت حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی اور ہمیں اپنے منہمک اساتذہ پر ناز ہے جو اس پروگرام کی جان ہیں۔ طویل عرصے سے، انسٹی ٹیوٹ نے شانداراساتذہ کی ایک جماعت تیار کی جو بیرون ملک سے آنے والےزبان سیکھنے کے خواہش مند افراد کے اپنی زبان اور ثقافتی ورثے کو بانٹنے کا شوق رکھتے ہیں ۔یہ اساتذہ توانائی اور تخیلات سے بھرپور ہیں اور وہ کلاس روم میں تدریسی مواد کی تیاری ،’ اسکَیوینجر ہنٹس‘ نامی پروگرام کو منظم کرنے ، مختلف پیشوں کی نمائندگی کرنے والے یک لسانی مہمان مقررین کو مدعو کرنے  اور کمیونٹی تنظیموں کے ساتھ خود کوجوڑنے میں انتھک محنت کرتے ہیں جن کے لیے طلبہ بعض اوقات رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ گھروں میں قیام ، میزبان خاندانوں کومانوس کرنے اورکبھی کبھار، طبّی  اور دیگر ہنگامی حالات سےمستعدی اور ہمدردی کے ساتھ نمٹتے ہیں۔ ان کے لیے میری تعریف، ایک طالب علم کے طور پر میرے اپنے تجربے سے پیدا ہوئی اور لینگویج کمیٹی میں میری خدمات اور پروگرام سینٹرس کے دورے سے اس میں مزید اضافہ ہوا۔ ان میں سے ہر ایک ثقافتی سفیر اورانفرادی طور پرامریکہ۔ ہند سفارت کاری کےایسے ہیرو ہیں جنہیں زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ 

فلپ لٹجینڈورف یونیورسٹی آف آئیووا میں ہندی اور جدید ہند مطالعات کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔ وہ امیریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز کے ۲۰۱۰ سے لے کر ۲۰۱۸ تک صدر رہے۔ 


اسپَین نیوزلیٹر اپنے میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے