خواجہ سراؤں کی بہتر نگہداشت کی راہ ہموار کرنا

یو ایس اے آئی ڈی (یو ایس ایڈ) کے تعاون سے چلنے والےمِتر کلینکس میں خواجہ سرا برادری کو محفوظ، سستی اور رسوائی سے پاک حفظان صحت خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔

پارومیتا پین

June 2023

خواجہ سراؤں کی بہتر نگہداشت کی راہ ہموار کرنا

مِتر کلینکس خواجہ سرا برادری ڈاکٹروں، صلاح کاروں اور آؤٹ ریچ کارکنوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ (تصویر بشکریہ یو ایس ایڈ)

یو ایس اے آئی ڈی( یو ایس ایڈ) کے تعاون سے چلنے والے ایکسلریٹ پروگرام نے جنوری۲۰۲۱ء میں حیدرآباد میں بھارت کا پہلا خواجہ سرا کلینک قائم کیا۔ اس پروگرام (ایکسلریٹ) کی مالی اعانت یونائیٹڈ اسٹیٹس پریسیڈنٹس ایمرجنسی پلان فار ایڈز ریلیف (پی ای ایف اے آر) کے ذریعہ کی جاتی ہے اور جان ہاپکنس یونیورسٹی (جے ایچ یو) کے ساتھ شراکت داری میں اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ ہندی میں لفظ ’مِتر‘ کا مطلب دوست ہے اور متر کلینکس ہمدردی اور دوستی پر مبنی بات چیت اور سرگرمیوں کے ذریعے خواجہ سرا برادری کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

یو ایس ایڈ اس کلینک کو تلنگانہ اسٹیٹ ایڈز پریوینشن اینڈ کنٹرول سوسائٹی اور حکومت ہند کی نیشنل ایڈز کنٹرول آرگنائزیشن (این اے سی او) کی اعانت سے چلاتی ہے۔

خواجہ سرا برادری سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں، صلاح کاروں اور آؤٹ ریچ کارکنوں کو ملازمت دینے والے کلینکس اب تھانے اور پونے میں بھی کام کر رہے ہیں۔ متر کلینکس نے اب تک قابل رسائی اور آسان خدمات فراہم کر کے خواجہ سرا برادری کے ۳ ہزار سے زیادہ اراکین کی مدد کی ہے۔ مثال کے طور پر ایچ آئی وی نگہداشت کی خدمات حاصل کرنے کے لیے متر کلینک جانے والی ایک ۲۵ سالہ خواجہ سرا خاتون تانیا خان کہتی ہیں کہ کلینک میں ان کا تجربہ پریشانی سے مبرا تھا اور فراہم کردہ خدمات سستی تھیں۔ ان کے بقول ’’سب کچھ بہت سہل اور آسان تھا۔‘‘

اسی طرح کی ایک اور پہل کے تحت مارچ ۲۰۲۱ء میں یونائیٹڈ اسٹیٹس سینٹرس فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے تعاون سے امپھال کے جواہر لال نہرو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ٹرانس جینڈر ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر شروع کیا گیا۔ سینٹر کے قیام اور متر کلینک دونوں کو یونائیٹڈ اسٹیٹس پریسیڈنٹس ایمرجنسی پلان فار ایڈز ریلیف (جسے عام طور پر پپفار کہا جاتا ہے) کے تحت مالی اعانت فراہم کی گئی۔

جامع نگہداشت

ایکسلریٹ ٹیم نے جان سی مارٹن فاؤنڈیشن جیسے عطیہ دہندگان کے تعاون سے کلینکس میں پی آر ای پی (پریپ) کو بھی مفت میں دستیاب کرایا ہے۔ ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پریپ انتہائی موثر ٹولس میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اسے انجکشن یا گولی کے طور پر دیا جا سکتا ہے۔

بھارت میں یو ایس ایڈ کی ایچ آئی وی ڈویژن چیف دیپیکا جوشی کہتی ہیں ’’یو ایس ایڈ کا ماننا ہے کہ بھارت میں خواجہ سرا برادری کو معیاری حفظان صحت تک رسائی میں بعض بڑی رکاوٹیں حائل ہیں اور انہیں باقیوں کی بہ نسبت ایچ آئی وی ایڈز اور دیگر طبی مسائل کا زیادہ ہی سامنا ہے۔‘‘

حفاظتی علاج و معالجے تک رسائی بڑھانے کے علاوہ کلینک پریپ کی ضرورت اور استعمال کے بارے میں مشاورت، ایچ آئی وی اور اس سے بچاؤ سے متعلق تعلیم، پروفیلیکٹکس (امراض کی روک تھام کی تدابیر) کی فراہمی، صنفی تشدد کے متاثرین کے لیے معاونتی خدمات اور نقصان میں تخفیف کی تدابیر جیسے ایچ آئی وی سے بچاؤ کی خدمات بھی پیش کرتا ہے۔

چیلنجوں پر قابو پانا

خواجہ سرا برادری کے اندر ثقافتی اور شناختی تنوع کے پیش نظر متر کلینکس کو چلانا منفرد چیلنجوں سے بھرپور ہے ۔ ایکسلریٹ/جے ایچ یو اسکول آف میڈیسن میں خواجہ سراؤں کی صحت کی ڈائریکٹر سمرن بھروچا کہتی ہیں ’’ہمیں جن اہم ترین چیلنجوں کا سامنا ہے وہ خواجہ سرا برادری کے مختلف ذیلی گروپوں کے درمیان باہمی برادری کی حرکیات کو دور کرنا ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم غیر جانبدار رہیں اور اپنے مریضوں کو معیاری نگہداشت فراہم کرنے کے لیے تمام افراد کی بہبود کو ترجیح دیں۔‘‘

ایک اور چیلنج کمیونٹی کی توقعات کو سنبھالنا ہے۔ ایکسلریٹ /جے ایچ یو اسکول آف میڈیسن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور پارٹی کے ڈپٹی چیف آدتیہ سنگھ کہتے ہیں ’’ایک اور چیلنج کمیونٹی کی توقعات پر کھرا اترنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ رسائی اور تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے ایکسلریٹ ٹیم نے ریفرل میکانزم قائم کیا ہے جو مریضوں کو سبسڈی والے نجی فراہم کنندگان اور حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے اداروں کی طرف منتقل کرتا ہے۔‘‘ یہ ریفرل ادارے ضرورت مندوں کو حکومت کی سماجی معاونت کی اسکیموں تک زیادہ سے زیادہ رسائی کے ساتھ ساتھ مریض پر مرکوز اور جامع انداز میں فراہم کی جانے والی حفظان صحت کی اضافی خدمات فراہم کرتے ہیں جو کہ مریض کی صنفی شناخت کے تئیں حساس ہوتی ہیں۔

مستقبل کے منصوبے

متر کلینکس کی ٹیمیں کمیونٹی کے ساتھ کھلی بات چیت اور دیگر پلیٹ فارموں اور پروگراموں کے ساتھ نیٹ ورک کو برقرار رکھتی ہیں تاکہ ان کے استفادہ کنندگان کی مدد کی جا سکے۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ کلینکس ایچ آئی وی سے متعلق خدمات سے ہٹ کر جامع حفظان صحت کی خدمات فراہم کرنا،حفظان صحت فراہم کرنے والے دیگر اداروں اور کمیونٹی پر مبنی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرنا، بیداری بڑھانا اور خواجہ سرا برادری کے حقوق کی وکالت کرنا چاہتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں ’’کلینکس کا مقصد خواجہ سرا برادری کے لیے ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرہ قائم کرنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور نجی شعبے سے حمایت حاصل کرنا بھی ہے۔‘‘

متر کلینکس کے پس پشت ماڈل سے ملک میں دیگر اقدامات کو تحریک ملی ہے۔ مثال کے طور پر نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) نے اپنے سینٹر آف ایکسیلنس فار ٹرانس جینڈر ہیلتھ کے ڈیزائن میں متر کلینک ماڈل کے عناصر کو شامل کیا ہے۔ یہ مرکز ملک بھر میں خواجہ سراؤں سے متعلق جامع نگہداشت کی توسیع کرنے اور طبی اور نیم طبی عملے کے درمیان صلاحیت سازی میں مدد کرے گا۔

سنگھ نے مزید کہا ’’متر کلینک ماڈل نے این اے سی او اور گلوبل فنڈ ٹو فائٹ ایڈز، ٹیوبرکلوسس اور ملیریا کے تعاون کے تحت خواجہ سرا افراد کے لیے ’ون اسٹاپ سینٹرز‘ کے قیام کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہمارے پروجیکٹ کے ذریعے ہم مختلف ڈھانچوں میں حکومت کے مربوط ہیلپ ڈیسک ماڈل، نجی شعبے کے تعاون کے ماڈل اور کمیونٹی کی قیادت والے ماڈل کی بھی شمولیت کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘

وہائٹ ہاؤس کےاعلامیہ نے پرائڈ منتھ کے اعزاز میں ہمیں یہ یاددہانی کرائی ہے ’’اب بھی نسل در نسل کام کرنا باقی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہر شخص مساوات، وقار، تحفظ اور آزادی کے مکمل وعدے سے مستفید ہو سکے۔‘‘ یہی اعلامیہ ایچ آئی وی ایڈز کی وبا کو ختم کرنے کی ضرورت کا اعادہ کرتا ہے اور پپفار اس کوشش کی حمایت جاری رکھے ہوا ہے۔ رواں برس پپفار کے فعال تعاون کا ۲۰ واں سال ہے جس میں امریکی حکومت نے ۵۰ سے زیادہ ممالک میں ایچ آئی وی ایڈز سے متعلق عالمی ردعمل میں ۱۰۰ بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ متر کلینکس جیسے اقدامات اس عالمی ردعمل کا ایک اہم جزو ہیں تاکہ خواجہ سرا برادری کے لیے بنیادی انسانی حقوق تک رسائی کی کاوشوں کو مضبوط کیا جا سکے اور ایچ آئی وی ایڈز کو ۲۰۳۰ءتک صحت عامہ کے خطرے کے طور پر ختم کیا جا سکے۔

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسیٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے