ہوائی آلودگی سے نجات کے اقدامات

آسٹِن کی دی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں فلبرائٹ ۔ نہرو فیلو جو شوا آپٹے کا تحقیقی گروپ شہروں میں ہوائی آلودگی پھیلانے والے مادّوں کے اخراج، لوگوں کے اس سے متاثر ہونے کے عمل اور انسانی صحت کے درمیان تعلقات کی افہام و تفہیم کے لیے کام کرتا ہے ۔

اسٹیو فاکس

May 2019

ہوائی آلودگی سے نجات کے اقدامات

جوشوا آپٹے نئی دہلی میں بھیڑ بھاڑ کے وقت ایک آٹو رکشہ میں سفر کے دوران اپنے لیپ ٹاپ پر آلودگی کی سطح کی جانچ کرتے ہوئے۔ تصویر از الطاف قادری © اے پی امیجیز۔

تنظیمی مشاورت کے میدان میں ایک کہاوت مقبول ہے’’ آپ جس چیز کی معیار بندی نہیں کرسکتے ، اس کا نظم و نسق سنبھالنابھی آپ کے بس کی بات نہیں۔ خیر،یہ تو ایک عام طور پر معلوم چیز ہے کہ دہلی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے کئی بڑے شہروں کی فضا بہت زیادہ آلودہ ہے۔ مگر صرف اتنا معلوم ہونا کافی نہیں ہے۔فضائی آلودگی سے مؤثر طور سے نمٹنے کے لیے اور صحت عامّہ میں بہتری لانے کے لیے شہر کے منصوبہ سازوں،ہوائی معیار کو منضبط کرنے والوں، صحت عامّہ کے لیے کام کرنے والوں اور اس سے متعلق دوسرے شعبے کے لوگوں کو آلودگی پھیلانے والے مختلف مادّوں کے بارے میں اور ان کے تعامل کے طریقوں کے بارے میں صحیح معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔

آسٹِن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں ڈپارٹمنٹ آف سول ، آرکی ٹیکچرل اینڈ انوائرونمینٹل انجینئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر جوشوا آپٹے کہتی ہیں ’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ فضائی آلودگی کی درستی کے ساتھ معیار بندی کے بغیر ہم آلودگی کے ذرائع اور ان سے نبردآزمائی کے طریقہ کار کے بارے میں ہم لوگ تاریکی میں تیر چلارہے ہوتے ہیں۔‘‘

آئی آئی ٹی دہلی سے ۲۰۱۰ ء میں فلبرائٹ ۔نہرو وظیفہ یافتہ آپٹے کہتی ہیں ’’ان مسائل کے حل کے لیے بین الاقوامی اشتراک لازمی ہے۔لہٰذا یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ امریکہ اور ہند کے سائنسداں فضائی آلودگی اور اس کے ذرائع پر قابو پانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں ۔

یہ سائنسداں شہروں میں پائی جانے والی فضائی آلودگی پر کام کر رہے ہیں ۔شہروں میں فضائی آلودگی بھی آپٹے کی توجہ کا شعبہ ہے۔

جب کہ آئی آئی ٹی دہلی کے سینٹر فار اَیٹموسفیرک سائنسیز میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ساگنِک ڈے خلا میں سیارچوں کے استعمال سے ہند کی فضائی آلودگی کا اندازہ لگانے والی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں۔

ڈے کہتے ہیں’’ سیّارچے زمینی ماحولیات میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بہت ساری معلومات فراہم کرتے ہیں ۔ یہ چیز انڈیا کے لیے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ ہمارے پاس فضائی آلودگی جیسے بہت سارے شعبوں کے لیے مضبوط مشاہداتی نظام نہیں ہے۔‘‘

ڈے کہتے ہیں’’ فضائی آلودگی صرف دہلی کے خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ شمالی ہند کے میدانی علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے جہاں ۷۰۰ ملین سے زیادہ افراد بود و باش اختیار کرتے ہیں ۔ فضائی آلودگی صرف بہت زیادہ آبادی والے شہروں کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ آبادی کے لحاظ سے دوسرے اور تیسرے زمرے کے شہروں میں بھی اب آلودگی کی سطح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اگر فضائی آلودگی پر قابو پانے کی سمت میں کوئی قدم اٹھایا نہیں جاتا ہے تو چھوٹے شہروں اور قصبوں کو بھی مستقبل قریب میں دہلی جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی نہیں، دیہی علاقوں میں بھی فضائی آلودگی کی سطح بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا یہ خیال کہ فضائی آلودگی صرف ایک شہری مسئلہ ہے ، انڈیا کے حوالے سے یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔‘‘

فضائی آلودگی پر قابو پانے کے سلسلے میں کوشش کرنے والے دوسرے شریک کاروں میں آئی آئی ٹی دہلی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر غزالہ حبیب اور ویب سائٹ www.urbanemissions.info کے بانی اور ڈائریکٹر سرتھ گُٹی کُنڈہ بھی شامل ہیں ۔ مذکورہ ویب سائٹ انڈیا میں فضائی آلودگی سے متعلق معلومات ، تحقیق اور تجزیے کا ایک جامع ذخیرہ ہے۔

آپٹے کی تحقیق میں سب زیادہ توجہ ذرّات کی شکل میں موجود مادّوں (پارٹیکولیٹ مَیٹر)پر دی جاتی ہے۔ صرف خوردبین سے ہی دیکھے جانے والے یہ ٹھوس مادّے جو انسانی بال کی چوڑائی سے بھی بہت چھوٹے ہوتے ہیں، سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں پہنچ کر صحت سے متعلق مختلف مسائل پیدا کرتے ہیں۔

آپٹے کہتی ہیں ’’ہم آلودگی پھیلانے والی تمام اشیاء کے بارے میں غور و خوض کرتے ہیں۔ لیکن پارٹیکولیٹ مَیٹرپر ہماری خصوصی توجہ ہوتی ہے کیوں کہ اندازہ ہے کہ اس دنیا میں ہونے والی انسانی اموات میں سے ۷ سے ۲۱ فی صد کا سبب یہی بنتے ہیں۔ انڈیا میں بھی صحت عامّہ پر اس کا اثر بہت زیادہ پڑتا ہے۔ بھارتی شہروں میں اس سے متعلق مسائل کو ہم کیسے حل کرتے ہیں یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیوں کہ اس کے بہت سارے ذرائع ہیں جن میں گاڑیوں کی آمد و رفت، تعمیری کام، بجلی کی پیداوار، صنعت، ڈیزل جنریٹر، لکڑی کا استعمال، اسٹوو کے لیے کوئلے اور گوبر کا استعمال، فصلوں کی کٹائی کے بعد کھیتوں کا جلانا وغیرہ شامل ہیں۔یہاں زیادہ تر شہروں میں آلودگی کے درجنوں ذرائع ہوتے ہیں ۔‘‘

آپٹے اور دیگر تحقیق کار ہوائی آلودگی کی سطح کا اندازہ لگانے کے لیے ، وقت کے ساتھ اس میں آنے والے فرق کو معلوم کرنے کے لیے اور ان میں کمی لانے کی کوششوں کے تئیں ان کا رد عمل جاننے کے لیے برقیاتی نگرانی کے آلات یا سینسر پر انحصار کرتے ہیں ۔ مگر یہ آلات کافی مہنگے ہونے کی وجہ سے نسبتاََ کمیاب ہوتے ہیں ، لہٰذا فضائی آلودگی کے زیادہ تر سینسر ساکن ہوتے ہیں ۔انہیں مخصوص مقامات پر نصب کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف اسی جگہ پر فضائی آلودگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جہاں ان کی تنصیب عمل میں آتی ہے۔آپٹے کا گروپ مختلف شہروں میں گھومنے والی گاڑیوں میں نصب سستے موبائل سینسر سے ملنے والے نتائج کو شامل کر کے نہ صرف انڈیا میں بلکہ دیگر مقامات پر بھی فضائی آلودگی سے متعلق سائنسدانوں کی مجموعی افہام و تفہیم میں وسعت لانے کا کام کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’’چلتے پھرتے لگائے جانے والے اندازے یہ معلوم کرنے میں ہماری افہام و تفہیم کو بہتر کرتے ہیں کہ کیا چیز سانسوں کے ساتھ انسانی جسم میں داخل ہو رہی ہے اور اس کے ذرائع کیا ہیں ۔ ہم جیسے جیسے فضائی آلودگی کی سطح کو معلوم کرنے میں بہتر ہوتے جائیں گے ،ویسے ویسے ہم اپنے نتائج کوپُرزور اور بہتر بنانے کے اہل ہوتے جائیں گے۔ مثال کے طور پر ہم لوگ کسی کے گھر کے سامنے بھی فضائی آلودگی کی سطح بتانے کے قابل ہو جائیں گے۔‘‘

آپٹے اور ان کے شریک کاروں کا خیال ہے کہ انڈیا کی فضائی آلودگی سے متعلق مسائل کا حل بالکل درست اور جامع تحقیق پر مبنی ہونا چاہئے ، ایسا ہی جس کی تگ و دَو وہ لوگ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ماحول سے متعلق مسائل کا اندازہ لگانے اور انضباطی اقدامات کرنے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سائنس کوبہترین طریقے سے بروئے کار لایا جائے۔ فضائی آلودگی کا معاشرے پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے لیکن یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے آسانی سے حل کر لیا جائے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے فائدے بہت زیادہ ہیں مگر اس کی قیمت بھی کم نہیں ہے۔ سیاسی طور سے بڑے پیمانے پر اس مسئلے کو حل کرنا مشکل ہے۔ ہوائی آلودگی کے موثر انضباط کے لیے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ جن پالیسیوں پر ہم لوگ کام کررہے ہیں وہ مؤثر ہیں یا نہیں، ہمیں سائنس کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

جب کہ ڈے با خبر کرتے ہیں ’’ہماری پوری توجہ منصوبہ سازوں کے لیے حکمت عملی پر مبنی معلومات پیدا کر نے پر ہے۔‘‘

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِنچورا میں مقیم آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے