ایڈس مریضوں کی دیکھ بھال

یو ایس ایڈ امداد یافتہ بچوں کے موزوں صحت مراکز ایچ آئی وی کے شکار بچوں کو صحت سے متعلق خدمات فراہم کر رہے ہیں ۔ ان مراکز سے بچوں کو ایّامِ طفلی میں ایک موافق کمیونٹی کی تلاش میں ثلاثی امداد بھی مل جاتی ہے۔

پارومیتا پین

August 2023

ایڈس مریضوں کی دیکھ بھال

یوایس ایڈ سے حمایت یافتہ طفل دوست صحت مراکز نوجوانوں کی قیادت والی ایک ایسی کمیونٹی تشکیل دیتے ہیں جو ایچ آئی وی پازیٹو بچوں کو زندگی کی دشواریوں کا سامنا کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ (تصویر بشکریہ ایکسیلریٹ)

حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی۱۲ سالہ تنیشا(بدلا ہوا نام) نہ صرف ایچ آئی وی کی مریضہ ہے  بلکہ وہ گھریلو تشد دکا بھی شکار رہی ہے  ۔ مگر پھر امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کے مخصوص پروگرام ایکسلریٹ کی مدد سے  تنیشا کی زندگی میں انقلاب آفریں تبدیلی پیدا ہوئی ۔تنیشا اور اس کے والدین ایچ آئی وی پازیٹو مریض ہیں۔ ایچ آئی وی کا علاج محدود آمدنی میں بہت مشکل ہوتا ہے۔ مگر تنیشا اور اس کی والدہ کوان کے شہر میں  یو اس ایڈ کے شرکاء کے ذریعہ قائم کئے گئے نو عمر وں کےلیے  موزوں صحت مراکز میں مطلوبہ امداد میسر آئی۔ اس مرکز میں تنیشا اور اس کی والدہ کی سلسلہ وار مشاورت کی گئی اور ان کو نفسیاتی سماجی امداد فراہم کی گئی۔ کلینک کے عملہ نے انہیں تلنگانہ صوبہ کی پولیس کے خواتین وِنگ سے بھی متعارف کرایا جہاں تنیشا کے والد کی مشاورت کی گئی۔ تنیشا فی الحال ہاسٹل میں رہتی ہے جبکہ اس  کی والدہ گھر کا خرچ چلانے کےلیے  کام کری ہیں۔

 نوجوانوں کو سہارا

مشترکہ اقوام متحدہ پروگرام برائے ایڈس کے ۲۰۲۱ء کے اعداد وشمار کے مطابق جنوبی ایشیاء میں پائے جانے والے ایچ آئی وی پازیٹو بچوں اور نو عمروں کی کُل تعداد کا ۶۰ فی صد حصہ بھارت میں پایا جاتا ہے۔ یو ایس ایڈ نے امریکی صدر ہنگامی منصوبہ برائے ایڈس راحت کی مالی امداد سے اپنے مخصوص پروگرام ایکسلریٹ کے زیر اہتمام نوعمروں کے لیے  موزوں صحت مراکز (اے ایف یچ سی) قائم کیے ہیں جن کی قیادت جان ہاپکنس یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کر رہا ہے۔ ان مراکز کا مقصد ۱۷۔۱۰ برس کے ایچ آئی وی پازیٹو  بچوں اور نو عمروں کو جامع صحت دیکھ بھال اور خدمات فراہم کرنا ہے۔

یو ایس ایڈ۔انڈیا میں ایچ آئی وی ڈویژن کی سربراہ دیپیکا جوشی کہتی ہیں ’’نو عمر ایچ آئی وی مریضوں کومختلف  قسم کے مسائل در پیش ہوتے ہیں ۔مثلاً سماجی بدنامی، یتیمی، محرومی، غربت و افلاس، غذائی غیر تحفظ، ایچ آئی وی علاج میں باقاعدگی کی کمی اور  راز فاش ہونے کا ڈر۔ ان سب کی وجہ سے  ان کو خراب نفسیاتی صحت کا خطرہ لاحق رہتا ہے جس کی وجہ سے ان کی جسمانی اور نفسیاتی نشو و نما پر کافی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘

اس خلاء کو پُر کرنے اور ایچ آئی وی کے متعلق تمام خدمات فراہم کرنے کی غرض سے یہ مراکزایچ آئی وی مثبت پازیٹو  اور نوعمروں میں ہنر پیدا کرنے کے لیے  ذرائع فراہم کرتے ہیں، تحفظ خدمات دستیات کرتے ہیں نیز انہیں تفریحی معلوماتی سرگرمیوں میں مشغول رکھتے ہیں جن  کا مقصد علاج کے بہتر نتائج برآمد کرنا ہے۔

ساتھیوں کی امداد  اور بھی بہت کچھ

بچوں کے لیے موزوں صحت مراکز میں نوجوانوں کی قیادت والے طبقات تشکیل دیے جاتے ہیں جن سے  ایچ آئی وی پازیٹو بچوں کو مسائل کو عبور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایکسلریٹ کے نائب چیف آف پارٹی آدتیہ سنگھ کہتے ہیں’’جب ایچ آئی وی پازیٹو بچے پہلی باراے ایف سی ایچ میں آتے ہیں تو ان سے ایچ آئی وی کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا جاتا ۔ بلکہ ان سے ان کی دلچسپیوں، پسندیدہ تفریحی سرگرمیوں، شوق اور دیگر اوصاف کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔اس طرح سے ہماری ٹیم کے اراکین ان بچوں سے اپنا جذباتی تعلق قائم کرتے ہیں جس سے ان بچوں کی اے آر ٹی (اینٹی ریٹرووائرل تھیریپی) کی پابندی کو یقینی بنایا جا سکے ،نیز ان کے وائرل لوڈ کو کم کیا جاسکے۔‘‘

بونی (بدلا ہوا نام) جو کہ ایچ آئی وی مریض بچہ ہے اس کے لیے  شروع شروع میں اے آرٹی کو قبول کرنا اور اس کی پابندی کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ مگر اب اسے احساس ہو گیا ہے کہ اس طرح کی خدمات کی اس کی زندگی میں کس قدر اہمیت ہے۔ اسے اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کو اپنے ایچ آئی وی پازیٹو  ہونے بارے میں بتانے میں شرمندگی کا احساس ہورہا تھا نیز وہ خوف زدہ بھی تھا۔ صحت مرکز میں بونی کو کافی راحت محسوس ہوئی۔ یہاں وہ اپنے ہم عمروں کے ساتھ گھل مل گیا ہے۔ وہ امدادی گروپ کی میٹنگوں میں شرکت کرتا ہے اور اس نے موسیقی کی کلاسوں میں بھی داخلہ لے لیا ہے۔وہ اب اپنی صحت کا خود خیال رکھتا ہے نیز اپنی دواؤں کی پابندی کرتا ہے اور وائرل لوڈ جانچ اور دیگر جانچ بھی پابندی سے کرواتا ہے۔ وہ نوعمر ایچ آئی وی مریضوں کے حقوق اور صحت سے متعلق  بہبود کی وکالت کرتا ہے اور ان کےلیے  ایک رول ماڈل بن گیا ہے۔ وہ ان کے ساتھ اپنی بیماری کے انکشاف اور اس کے علاج کے تجربات کا اشتراک کرتا ہے۔ بونی نوجوان ایچ آئی وی مریضوں کی رضا کار تنظیم یوتھ پلس نیٹ ورک سے وابستہ ہے جس کے زیر اہتمام وہ اپنے ہم عمروں میں ایچ آئی وی اور اس سے جڑے معاملات کے متعلق بیداری پیدا کرتا ہے۔

سنگھ بتاتے ہیں ’’ ۲۰۲۱ء میں امپھال، گُنٹور اور حیدرآباد میں اپنے قیام سے لے کر ۲۰۲۳ء تک اے ایف ایچ سی نے ایک ہزار سے زائد بچوں کو اپنی خدمات مہیا کروائی ہیں۔ ان میں سے ۷۴۹ بچوں کی فی الحال اے آر ٹی چل رہی ہے ۔ جون ۲۰۲۳ء تک ۹۵ فی صد (اندراج کے وقت یہ شرح ۶۹ فی صد تھی) کے وائرل لوڈ میں تخفیف ہو چکی ہے۔ اس سے ایچ آئی وی کے علاج میں باقاعدگی سے وائرل لوڈ جانچ  ،نیز اے ایف ایچ سی کی نو عمر ایچ آئی وی مریضوں کے علاج میں اہمیت صاف ظاہر ہوتی ہے۔‘‘

 مستقبل کے منصوبے

یو ایس ایڈ اپنے مراکز میں توسیع کرکے سرکاری، نجی،عوامی اور سول سوسائٹی تنظیموں کے ساتھ ان کا الحاق کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر حیدرآباد مرکز کی برادری والی تنظیم چییوتھا کے ساتھ شراکت دیگر علاقوں کے لیے  ایک مشعل راہ ثابت ہوئی ہے ۔ علاوہ ازیں پونے والا مرکز مسلح افواج میڈیکل کالج کے احاطہ میں واقع ہے۔ در حقیقت یہ سرکاری الحاق کی جانب ایک قدم ہے۔

سنگھ بتاتے ہیں ’’ اس سال پیپفار کے ۲۰ برس مکمل ہو جائیں گے۔ اپنے دو عشروں پر محیط اس طویل سفر کے دوران پیپفار نے ایچ آئی وی کے خلاف جنگ میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں  جس کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ یہ مراکز بچوں اور نو عمروں میں اے آر ٹی کی  پابندی میں اضافے میں کافی مؤثر رہے ہیں۔‘‘

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں عالمی میڈیا مطالعات کی معاون پروفیسر ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر کو مفت حاصل کرنے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے