تحفظ والی سائنس

فلبرائٹ وظیفہ یافتہ اُما راما کرشنن آبادیاتی جینیات کا استعمال کرتے ہوئے شیر کی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری نبھانے کا کام کر رہی ہیں۔

نتاشا مِلاس

March 2019

تحفظ والی سائنس

تصویر بشکریہ اوما راماکرشنن

اوما راما کرشنن بنگالورو کے نیشنل سینٹر فار بایو لوجیکل سائنسیز میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں ۔ ا ن کا کام آبادیاتی جینیات اوردودھ پلانے والے جانوروں کی ارتقائی تاریخ پر مبنی ہے۔ وہ ملک کی معروف سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جو بر صغیر میں شیروں کی آبادی کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔

ان کی تحقیق سے حاصل اعداد وشمار کا استعمال تیزی سے شہر میں تبدیل ہوتے بھارت میں شیروں کے تحفظ سے متعلق منصوبے بنانے اور اسے بہتر کرنے میں کیا گیا ہے۔ سنہ ۲۰۱۳ء میں راما کرشنن اور ان کی ٹیم کے اعداد وشمار کا استعمال توسیع شدہ قومی شاہراہ نمبر ۷ پر انڈر پاس بنانے کے لیے عدالت عظمیٰ میں دی گئی عرضی پر ایک ثبوت کے طور پر کیا گیا ۔ عرضی میں کانہا اور پینچ ٹائیگر ریزرو کے درمیان شیروں کے آنے جانے کے لیے راستہ فراہم کرنے کی اجازت کی بات کہی گئی۔

راما کرشنن ۱۶۔۲۰۱۵ء میں کیلیفورنیا میں واقع اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں فلبرائٹ۔ نہرو اکیڈمک اینڈ پروفیشنل ایکسیلینس فیلو رہی ہیں ۔ وہ شکاگو میں واقع فیلڈ میوزیم کے ذریعے عطا کیا جانے والا پارکر/ جینٹری ایوارڈ حاصل کر نے والی پہلی بھارتی ہیں۔ یہ انعام شیروں سے حاصل جینیاتی اعداد شمار کا استعمال ان کے تحفظ سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے راما کرشنن کے کام کے اعتراف میں انہیں دیا گیا۔پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔

آپ آبادیاتی جینیات میں کس طرح دلچسپی لینے لگیں؟

میری دلچسپی ہمیشہ سے فطری دنیا اور جانوروں کے رویے کو سمجھنے میں رہی ہے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میں بینگالورو میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے کیمپس میں پلی بڑھی۔ایک بچے کے طور پر میر ا تجسّس ہمیشہ سے فطری دنیا کا صرف مشاہدہ کرنے سے پرے رہا ہے۔میں نے خود سے سوال کیا کہ جانور ایسا رویہ کیوں رکھتے ہیں جیسے وہ پیش آتے ہیں؟ جانوروں کی آبادی میں اصل میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟مجھے اس بات کا احساس بہت پہلے ہو گیا تھا کہ معلومات کی کوئی پوشیدہ پرت ہے ، ہم لوگ جس پر توجہ نہیں دیتے اور وہ پوشیدہ پرت ڈی این اے اور جینیاتی تغیر پذیری کی ہے۔

ہائی اسکول کے بعد میں اپنے کنبے کے ساتھ نیو جرسی میں واقع پرنسٹن یونیورسٹی چلی گئی جہاں میرے والد تحقیقی کام کے سلسلے میں چھٹیاں گزار رہے تھے۔میں نے یہاں یونیورسٹی کے بہت سارے کورس کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور مالیکولر بایولوجی لیب میں وقت گزارا۔ یہیں مجھے محسوس ہوا کہ میں معلومات کی اس پوشیدہ تہہ تک پہنچ کر حیاتیات میں گہری بصیرت حاصل کر سکتی ہوں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں جنگل کی زندگی کی آبادی کے مطالعے کے لیے جینیاتی نظریے کا استعمال کرنا چاہتی تھی۔

میری خوش بختی تھی کہ پڑھائی ختم کرنے کے ساتھ ہی مجھے بنگالورو میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈا مینٹل ریسرچ کے شعبے نیشنل سینٹر فار بایو لو جیکل سائنسیز(این سی بی ایس) میں ملازمت مل گئی اور پھر میں بااختیار بنانے والے اس ماحول میں رچ بس گئی۔ ماحولیات اورارتقاء کے شعبے میں انہوں نے پہلی تقرری میری ہی کی۔تقرری کے بعد مجھے اُلّاس کرنتھ نے فون کیا اور جاننا چاہا کہ کیا میں شیروں کی جینیات پر کام کرنے میں دلچسپی رکھتی ہوں ۔ اور اس کے بعد جو ہوااس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ تاریخ کا ایک باب ہے۔این سی بی ایس میں قریب ۱۵ برس گزارنے کے بعد شیروں کو سمجھنے اور دیگر بھارتی  حیاتیاتی تنوع کو سمجھنے کا میرا سفر نا قابل ِ یقین حد تک دلچسپ رہا ہے۔

اوما راما کرشنن اپنے شاگرد کوشل پٹیل کے ساتھ ٹائیگر کے بالوں کے نمونے یکجا کرتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ اوما راما کرشنن

بھارت میں شیروں کے تحفظ میں آپ کا کام کس طرح مدد کرتا ہے؟

شیروں کا مستقبل واقعی ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔حکومتِ ہند مبارکباد کی مستحق ہے جس کی کوششوں کی وجہ سے شیروں کی آبادی میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ان کا زندہ اور باقی رہنا ان کے درمیان روابط برقرار رکھنے کی ہماری صلاحیت پر منحصر کرے گا۔مجھے اس بات پر ناز ہے کہ ۲۰۱۳ ء میں ہمارے کام کو توسیع شدہ قومی شاہراہ نمبر ۷ پر انڈرپاس کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ میں دی گئی عرضی میں ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس عرضی میں کانہا اور پینچ ٹائیگر ریزرو کے درمیان شیروں کے آنے جانے کے لیے گزرگاہ فراہم کرنے کی اجازت دینے کی بات کہی گئی تھی۔ ہم نے صرف اس کی سائنس پر کام کیا ۔ پھر بہت سارے لوگوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے ہماری کاوش کوشیروں کے تحفظ کے لیے کافی اثر پذیر بنادیا۔ یہ حقیقت کہ سائنس اور اعداد و شمار کا وجود ہے ، کافی اہم ہے۔

میں سمجھتی ہوں کہ ہماری تحقیق نے سائنس،مینجمنٹ اور پالیسی کے درمیان خلا کو پُر کرنے کا کام کیا ہے اور یہ آئندہ بھی ایسا کرتی رہے گی۔ فی الحال ہم لوگ راجستھان میں شیروں کی بکھری آبادی پر کام کررہے ہیں اورمیں امید کرتی ہوں کہ ہماری تحقیق کی بصیرت ایسے منصوبے بنانے میں مدد کرے گی جوشیروں کی آبادی کی طویل مدتی بقا کو یقینی بنانے کے لیے بہترین ہوگا۔

۱۶۔۲۰۱۵ ء میں آپ فلبرائٹ ۔نہرو اکیڈمک اینڈ پروفیشنل ایکسیلنس فیلو کے طور پرکیلی فورنیا میں واقع اسٹین فورڈ یونیورسٹی چلی گئیں ۔ وہاں کا تجربہ انڈیا میں آپ کی موجودہ ذمہ داریوں میں کس طرح معاون ہو رہا ہے؟

یہ میرے لیے واقعی ایک بہت بڑا موقع تھاجو این سی بی ایس میں قریب ۹ برس گزارنے کے بعد مجھے ملا۔ میں نے بھارت میں تحقیق سے متعلق بہت سارے سوالات کا جواب دیا اور اپنی مدت کار میں طلبہ ، امداد اور ادارہ جاتی سرگرمیوں میں مصروف رہی۔ تحقیق کی غرض سے چھٹی لینے کا خیال مجھے بڑا اچھا معلوم ہوا۔آبادیاتی جینیات کے اعتبار سے اسٹین فورڈ یونیورسٹی کی حیثیت بہت اعلیٰ ہے ۔ میری جستجو وہاں مجھے بے آرام رکھتی تھی۔ یہ بتاتی چلوں کہ اسٹین فورڈ یونیورسٹی سان فرانسسکو بے ایریا میں واقع ہے جہاں نئی جینیاتی تکنیک پر کام کرنے والے اسٹارٹ اپ اور تحفظ سے متعلق کام کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیموں کے دفاتر ہیں۔

خود کو بے آرام رکھنے سے متعلق ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بے آرامی آپ کو بااختیار بنانے کا کام کرتی ہے۔ یونیورسٹی میں ہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحفظ سے متعلق جینیات کے لیے عام طور سے ایک چیلنج کو یعنی غیر جراحتی (غیر متعدّی) یا غیر معیاری ڈی این اے کے نمونوں کو ایک طاقت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہم نے خود سے پوچھا کہ کیا ہم غیر معیاری نمونوں پر کام کرنے کے لیے سستے، قابل اعتماد اور تیز رفتار طریقے وضع کر سکتے ہیں جس میں نئی جینیاتی تکنیک کا استعمال کیا جا سکے۔ہم نے کامیابی کے ساتھ ان طریقوں کو تیار کیا اورامریکہ اور بھارت کے درمیان شیروں پر اور سمندری جانور، کوئن کونچ پر اس کا تجربہ کیا۔

اسٹین فورڈ میں قیام کے دوران میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پروگرام فار کنزرویشن جینومِکس ترتیب دیا ۔ ہمارا مقصد زمین پر تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کو آسان جینیاتی طریقے فراہم کرنا تھا۔ہم اب تک اسے ایک حقیقی شکل دینے پر مل کر کام کررہے ہیں۔ ہمارا کام اب بھی اپنے ساتھیوں کے ذریعے جائزہ لینے کے مرحلے میں ہی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ہم جلد ہی اس مرحلے سے باہر نکل آئیں گے اور پھر زمین پرتحفظ کے لیے کام کرنے والوں کوبااختیار بنانے کے طریقے فراہم کر پائیں گے۔

آپ کے کام میں بعض بڑے چیلنج کیا ہیں؟

جانوروں کے لیے بنائے گئے محفوظ علاقوں میں کام کرنے کی اجازت حاصل کرنا ہمیشہ سے ہی چیلنج رہا ہے۔ اس کے بعد بھی بعض ایسی چیزیں ہیں جن پر آپ کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اگر بارش ہو تو آئندہ کچھ دنوں میں آپ کے جمع کیے ہوئے نمونوں میں ڈی این اے کی امید نہیں کی جا سکتی یا اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔کبھی کبھی ہم لوگ بڑی ٹیموں کے ساتھ کام کرتے ہیں یا ایسے علاقوں میں کام کرتے ہیں جہاں پہنچنا کافی مشکل ہوتا ہے( مثال کے طور پر کافی اونچائی) یا پھر ایسے علاقوں میں کام کرتے ہیں جو سیاسی وجوہات سے مستحکم نہیں ہوتے۔

مستقبل میں آپ کے تحقیقی منصوبے کیا ہیں؟

میں تمام ایشیا میں شیروں پر تحقیق کرنے والے دیگر افراد سے شراکت داری کرنا چاہوں گی۔ اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں ہم نے جو طریقے تیار کیے انہیں ان تمام ملکوں میں عام کیا جائے گا جہاں شیر پائے جاتے ہیں۔ ہمارے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تیار کیا جائے جس کاا ستعمال تمام دنیا میں کوئی بھی شخص تجزیے کے لیے کر سکے تاکہ اعداد و شمار کا موازنہ کیا جاسکے۔اس کوشش میں اہم چیز یہ ہے کہ ہر ملک مقامی طور پر شیروں پر جینیاتی اعداد وشمارتیار کرنے کے لیے اور اس کے تجزیہ کے لیے ایک ماحولیاتی نظام تیارکرے۔

ہم شیروں کی چھوٹی اور بکھری آبادی میں خود زرخیزی یا رشتہ داروں کے درمیان نر اور مادہ کے ملاپ کے اثرات کو سمجھنے کے لیے کافی محنت کر رہے ہیں۔ شیرجیسے جانور کے لیے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ہمارا تفصیلی کام جس پر ہم آگے بڑھ رہے ہیں، اس مسئلے پر کچھ روشنی ڈال سکتا ہے جو یقینی طور پر وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ عام ہوتا جائے گا۔

اس شعبے میں کافی دلچسپ تحقیقی کام کیے جاسکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہماری تحقیق حیاتیاتی تنوع کو ہونے والے نقصان کو یکسر تبدیل کرنے میں (خواہ جزوی طور پر ہی سہی)ضرور تعاون کرے گی۔

نتاشا ملاس واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزادپیشہ صحافی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے