ایچ آئی وی متاثر خاندانوں کی زندگی بہتر بنانا

یو ایس ایڈ امداد یافتہ پروگراموں کے مدد سے ایچ آئی وی کے سبب یتیم ہوئے اور غیر محفوظ بچوں کے لیے جامع دیکھ بھال ممکن ہو رہی ہے۔

نتاشا ملاس

August 2023

ایچ آئی وی متاثر خاندانوں کی زندگی بہتر بنانا

یوایس ایڈ کی ایکسلریٹ پروجیکٹ ٹیم کے اراکین کو اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ لاوارث اور کمزور بچوں کی نگہداشت کرنے والے افراد اور خانوادوں کو بچوں کے علاج کے عمل میں شامل کریں اور انہیں اس کے بارے میں باخبر بھی کریں۔ (تصویر بشکریہ پروجیکٹ ایکسلریٹ)

امفال سے تعلق رکھنے والی نرگس (بدلا ہوا نام) ایڈس سے متاثرہ ایک نوعمر بچی ہے۔ بچوں کی صحت کی  نگرانی پر متعین شخص کو یہ دیکھ کر تشویش ہوئی  کہ گوچہ  نرگس  کو دوائیں برابر دی جارہی ہیں مگر اس کے باوجود اس کے خون میں موجود ایچ آئی وی جراثیم کی مقدار میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔ سرپرست ماں کے زیر سایہ پروان چڑھ رہ رہی بچی کو پابندی کے ساتھ دوائیں نہیں مل پا رہی تھیں۔ صحت نگراں نے نرگس کو اس کے نانا نانی کے گھر منتقل کیا مگر نرگس کا میلان دوا لینے کی جانب نہیں تھا کیوں کہ دوا سے اسے متلیاں ہو رہی تھیں اور اس کا جی متلا رہا تھا ۔ صحت نگراں نےنرگس کی دواؤں کا ایک معمول بنایا اوراس کی مسلسل خبر گیری کرتی رہیں۔ بالآخر پانچ ماہ بعد اس کے مثبت نتائج ظاہر ہونے لگے اور نرگس کے خون میں موجود ایچ آئی وی جراثیم میں خاطر خواہ کمی درج کی گئی۔

نرگس یو ایس ایڈ کے یتیم اور غیر محفوظ بچوں سے متعلق  (او وی سی) پروگرام کے بہت سارے فیض یافتہ بچوں  میں سے ایک ہے۔ اس پروگرام کے تحت ایچ آئی وی سے متاثر بچوں اور نوعمروں کو زندگی جینے کے لیے  سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔امریکی صدر ہنگامی منصوبہ برائے ایڈس راحت (پی ای پی ایف اے آر) کے زیر اہتمام او وی سی پروگرام کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ پیپفار کا قیام ۲۰۰۳ءمیں عمل میں آیا تھا جس کے تحت امریکی حکومت عالمی سطح پر مختلف ممالک میں ایڈس پر قابو پانے کے لیے ۱۰۰بلین ڈالر خرچ کر چکی ہے۔

جامع امداد

یتیم اور غیر محفوظ اطفال پروگرام کے تحت ایسے بچوں اور نوعمروں کو جن کو ایچ آئی انفیکشن کا خطرہ لاحق ہوتا ہے،یا وہ خود ایچ آئی وی کے مریض ہوتے ہیں یا پھر ایچ آئی وی پازیٹودیکھ بھال کرنے والوں  کے ساتھ رہتے ہیں، ان کے لیے  ہم عمروں کی قیادت والی اور خاندان پر مرکوز دیکھ بھال کی خدمات مہیا کرائی جاتی ہیں۔ یو ایس ایڈ انڈیا  کی پروجیکٹ مینجمنٹ  اسپیشلسٹ سُکھوِندرکور بتاتی ہیں کہ یو ایس ایڈ کا ایکسلریٹ  نام کا ایک پروجیکٹ ہے جس کو جا ن ہاپکِنس یونیورسٹی چلا رہی ہے۔ایکسلریٹ قومی اور علاقائی شرکاء کی مدد سے ایچ آئی وی متاثر ہ بچوں اور نوعمروں کو جامع دیکھ بھال فراہم کرتا ہے۔ اس میں تعلیمی مدد، غذائی اشیاء کی فراہمی ، مشاورت اورحیض کے دوران صفائی سے متعلق بیداری مہمات ، پیڈ کی تقسیم نیز لائف اسکِلس کی تعلیمات شامل ہیں۔

ایکسلریٹ کے تحت ۱۷ برس کی عمر تک کے ایچ آئی وی کے ان مریض بچوں کی امداد کی جاتی ہے جن کی ایڈس علاج مراکز، انٹیگریٹد مشاورتی اور جانچ مراکز،یتیم خانوں اور دیکھ بھال مراکز اور برادریوں والی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے سفارش کی جاتی ہے۔  ایکسلریٹ کے سینئر ایکزیکٹو ڈائریکٹر اور نائب چیف آف پارٹی آدتیہ سنگھ بتاتے ہیں ’’ او وی سی اصل میں کثیر شرکا ء پر مبنی ایک مشترکہ لائحۂ عمل  ہے جس کے تحت ایچ آئی وی؍ایڈس کے مریض بچوں اورنو عمروں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی سعی کی جاتی ہے۔‘‘

اہل خانہ کی شرکت

یتیم اور غیر محفوظ اطفال کے پروگرام کے ذریعہ سے افراد خانہ کو ایچ آئی وی؍ایڈس کے مریض بچوں کی تیمارداری کے متعلق تربیت دی جاتی ہے۔ کور بتاتی ہیں کہ ایکسلریٹ آؤٹ ریچ ٹیم کو یہ تربیت دی جاتی ہے اور نگرانی بھی کی جاتی ہے کہ وہ جب بھی کسی ایچ آئی وہ؍ایڈس کے مریض بچے یا نو عمر کے گھرجائیں تو مشاورت اورخدمات کی فراہمی کے عمل کے دوران نہ صرف متاثرین پر توجہ دیں بلکہ ان کے گھر والوں کو بھی اس عمل میں برابر شریک رکھیں۔ اور اس لائحہ عمل کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر نرگس کا ہی معاملہ لے لیجیے جہاں اس کے نانانانی کو نرگس کی ایڈس کی بیماری کے علاج کے دوران مسلسل باخبر رکھا گیا۔ اسی وجہ سے نرگس کے ایچ آئی وی انفیکشن پر قابو پانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔

اووی سی ٹیم کے اراکین برادریوں کو بچوں کے استحصال کے تئیں حسّاس بناتے ہیں اور بچوں کے تیمار داروں کو بھی اس کے متعلق با خبر کرتے ہیں۔ جب بھی غیر محفوظ بچوں کی حفاظت کی ضرورت پڑتی ہے تو ٹیم مداخلت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ مثال کے طورپرآئزول کے ضلعی اووی سی  پروگرام منیجر اور تیمار دار نے ایک ۱۲ سالہ اسکولی بچی کے معاملہ میں مداخلت کی جس کو اسکول میں طلبہ  صرف اس لیے پریشان کررہے تھے کیوں کہ اس کی ماں ایچ آئی وی پازیٹو تھی۔اس مداخلت کا مثبت نتیجہ سامنے آیا اور اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے یقین دلایا کہ آئندہ اس قسم کی حرکت نہیں ہوگی اور اس جانب توجہ دلانے کے لیے ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔

سنگھ بتاتی ہیں ’’ ٹیم درج فیض یافتگان کے ایسے معاملات کا کافی شدت سے خیال کرتی ہے۔ ٹیم ایسے معاملات میں رازداری بھی برتتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ او وی سی ٹیم بچوں کواستحصال اور امتیازی سلوک سے محفوظ رکھنے کے لیے  بروقت اقدام کر پاتی ہے۔‘‘

فی الحال پی ای پی ایف آر قومی پروگرام برائے ایڈس کنٹرول کےلیے  ایک کیس اسٹڈی پر کام کر رہی ہے ۔ اس کا مقصد ایچ آئی وی کے مریض بچوں، نو عمروں، نیز ۲۴برس تک کے نوجوانوں کے لیے  علاج کا جامع لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ مزید برآں ، پروگرام ٹیم ایچ آئی وی کے مریض بچوں کی تیمار داری کے لیے معیاری اصول و ضوابط، راہنما خطوط اور موڈیول وضع کرنے میں مصروف ہے۔ بعد ازاں اس کو این اے سی پی کی مدد سے نافذ کیا جائے گا۔ یہ پروگرام یہیں نہیں رک جائے گا بلکہ معاشرہ کے ان نہایت غیر محفوظ طبقات کی فلاح اور حفاظت کے لیے مسلسل کوشاں رہے گا۔ واضح رہے کہ جب سے یہ پروگرام شروع ہوا ہے اس وقت سے اب تک اس کا  سفر نہایت کامیاب رہا ہے۔

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد  پیشہ قلمکار ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر مفت میں حاصل کرنے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے