مستقبل کے لیے تربیت

آئی آئی ٹی کانپور میں ۲۰۰ طلبہ ٹریننگ، کورس پروجیکٹس اور تحقیق کے لیے ہر روز کمپیوٹر سینٹر کا استعمال کرتے ہیں۔

لین آشر

Retrospective Edition, January 2022

مستقبل کے لیے تربیت
آئی آئی ٹی کانپور کا جدید کیمپس۔ تصویر از اویناش پسریچا

آئی بی ایم ۷۰۴۴ کمپیوٹر پر کلک کی آواز سے اپنی آواز بلند کرتے ہوئےہوساکرے مہابالا نے خوشی سے کہا ’’میں نے مصنوعی ذہانت کے منصوبے کے لیے مساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تیار کیے جانے والے کمپیوٹر روبوٹ پر مہینوں تک کام کیااور مجھے  اپنی دو سالہ بیٹی کی طرح کمپیوٹر سے کبھی معقول کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کو نہیں ملا۔‘‘

آئی آئی ٹی کانپور میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مہابالا کمپیوٹر کے ساتھ اپنے تعلق کو سنجیدگی سے لیکن ہمیشہ ہلکے پھلکے انداز میں لیتے ہیں۔ انہوں نے آگاہ کیا ’’ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ بنیادی طور پر کمپیوٹر ایک ’احمق‘ہے۔ بلاشبہ، یہ ایک ایسا احمق ہےجو اپنا کام بہت تیزی سے اور بعض صورتوں میں۱۰ سیکنڈ میں ملین کے حساب سے کرسکتا ہے لیکن پھر بھی یہ آپ کے حکم پر عمل کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘

آئی آئی ٹی  کا ۷۰۴۴؍۱۴۰۱ سسٹم انسٹی ٹیوٹ کے نئے کمپیوٹرسینٹرمیں اپنے آرڈرز کو ایک مصروف تال کے ساتھ انجام دے رہا تھا جو کہ سخت لیکن مضبوط ساختیاتی لائنوں کا ایک جدید ڈھانچہ ہے۔ کسی بھی بھارتی اسکول میں کمپیوٹرکا سب سے بڑا مرکزآئی آئی ٹی نہ صرف آئی آئی ٹی طلبہ کو کمپیوٹر کے استعمال کی تربیت دیتا ہے بلکہ تعلیمی، تحقیقی اور صنعتی اداروں کے طلبہ کوبھی مختصر مدت کے لیے تربیت فراہم کرتاہے۔ سبھی ۳۰۰ انڈر گریجویٹس طلبہ کو بی ٹیک کے تیسرے سال کے پروگرام میں کمپیوٹر کا استعمال سکھایا جاتا ہے۔ ۵۰۰ پوسٹ گریجویٹس طلبہ میں سے زیادہ تر کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں اور کسی بھی معمول کے دن سینٹر تقریباً ۲۰۰طلبہ کے لیے بالخصوص  اپنے پروجیکٹ اور تحقیقی کام کے لیے پروگرام چلاتا ہے۔

انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں کمپیوٹر سائنسز کے ساتھ گریجویٹ پروگرام کی بھی پیشکش کی جاتی ہے۔ اس کورس میں پروگرامنگ کی تکنیک اور کمپیوٹر ڈیزائن کی تکنیک دونوں پڑھائی جاتی ہیں۔ کمپیوٹر ایپلی کیشن میں اس کے علاوہ اضافی کورسز بھی ہیں۔

مرکز اپنی کمپیوٹر سہولیات اور خدمات تحقیق اور ترقی کے اداروں کو بھی کرائے پر دیتا ہے، حالانکہ کمپیوٹر کا ۹۰  فی صد وقت اساتذہ اور طلبہ کے پروجیکٹ کے لیے ابھی بھی مختص ہے۔ اب تک ۱۰۰ سے زیادہ بیرونی تنظیموں نے مرکز کی سہولیات کا استعمال کیا ہے۔ ان کی ضروریات بنیادی طور پر تین اقسام میں آتی ہیں: ٹربائنز، الیکٹریکل جنریٹرز، پلوں اور عمارتوں جیسے نظاموں کا انجینئرنگ ڈیزائن؛ اس کو چلانےکے لیے تحقیق،جیسے پٹرولیم کی تقسیم کے مقامات کاتعین اورشہر ی منصوبہ بندی اور مارکیٹ ریسرچ کے  سروے میں جمع کردہ ڈیٹا کا تجزیہ اور ترتیب۔

۷۰۴۴کمپلیکس کوکام کرتے دیکھنا  اسپتال کی نرسری میں بچوں کو دیکھنے جیسا ہے۔ دیکھنے والے کھڑکیوں سے مشینوں کو دیکھتے ہیں جب کہ دوسری طرف فخرمحسوس کررہے انجینئرز ٹیپ، ڈسک، میموری بینک، کیلکولیٹر، پروسیسرز اور پرنٹ آؤٹ آلات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اندر، ایک مضبوط فرش پر ( طاقتور اور وزنی برین سیلز) کئی درجن ڈبے اور پینل ایستادہ جن میں سیکڑوں میل لمبے  تار پیچیدہ نمونوں سے جڑے ہوئے ہیں، جن میں سے ہر سےایک مخصوص برقی نتیجہ پیداہوتا ہے۔ اس سسٹم کی دیکھ بھال ہائی اسکول گریجویٹ آپریٹرز کی ایک ٹیم کرتی ہے جس کو انسٹی ٹیوٹ نے رکھا ہوا ہے۔ درخواست دہندگان کو اہلیت کا امتحان دینا ہوتا ہے اور منتخب ہونے پر انہیں ملازمت کے دوران تربیت دی جاتی ہے۔

۷۰۴۴کمپیوٹر اکیلے کام نہیں کرتا بلکہ اسے اپنے ساتھی     آئی بی ایم ۱۴۰۱   کے ان پٹ ،آؤٹ پٹ سیٹلائٹ کے ذریعے بنیادی ڈیٹا فراہم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے، انسانی پروگرامرز کے ذریعے کارڈز پر پہلے سے پنچ کیے گئے پروگرام کا ڈیٹا ۱۴۰۱کو فیڈ کیا جاتا ہے۔ ہر کارڈ میں اس مسئلے کے حل کے بارے میں ایک بیان یا اس کے حل کے لیے ہدایات ہوتی ہیں۔ یہ عددی شکل میں بیان کی جاتی  ہیں کیوں کہ کمپیوٹر صرف ریاضی کی اصطلاحات کو سمجھنے کے قابل ہے۔ ۱۴۰۱ ان بیانات کو مقناطیسی ٹیپ پر معلومات کے ۱۰ کارڈز، یا تقریباً ۸۰۰ حروف، فی انچ ٹیپ کی شرح سے ریکارڈ کرتا ہے۔ ۷۰ انچ فی سیکنڈ کی رفتار کے ساتھ۱۰ کارڈز کو پڑھنے اور ریکارڈ کرنے میں ۱۴۰۱ کو ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ ۱۴۰۱ تیار شدہ ٹیپ کو ۷۰۴۴فیڈ کرتا ہے جس پر مسئلہ اور اس کا ڈیٹا بیان کیا گیا ہے۔ ۷۰۴۴ اسے اپنی ’مشینی‘ زبان میں ترجمہ کرتا ہے اور حساب کتاب کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ سیکنڈوں میں یہ جواب تیار کرتا ہے اور اسے ۱۴۰۱ کے لیے ایک ٹیپ پر لکھتا ہے تاکہ اسے کاغذ پرنکالا یا پڑھا جا سکے۔

کمپیوٹر خود اپنے معاون ریڈر اور پرنٹر ۱۴۰۱ سے کہیں زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک منٹ میں ۲۴۰۰ لائنوں کا حساب لگایا جا سکتا ہے لیکن اسی منٹ میں صرف ۶۰۰ لائنیں پرنٹ کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے تمام کاموں کو ۷۰۴۴ کوفراہم کرنے کے پہلے سے پروگرام کیا جانا چاہیے۔ ۷۰۴۴ جیسے مہنگے برقی دماغی خلیات کو چند سیکنڈ کے لیے بھی کام کرنے سے روکنا اقتصادی طور پر نقصاندہ  ہے۔ درحقیقت، کمپیوٹر جو اپنے وقت کی قدر سے واقف ہے، فوری طور پر کسی پروگرام کو مسترد کر دیتا ہے اگر اسے اپنا حساب کتاب جاری رکھنےکے لیے پروگرامنگ میں کوئی خامی نظر آتی ہے۔

مہابالانے اپنی کمپیوٹر فیملی کے بارے میں ازراہ تفنن اعتراف کیا کہ مشینوں کی جدت کے باوجودمرکز اب بھی بجلی کے دیوتاؤں کے رحم و کرم پر ہے۔ ایسا وقت بھی تھا جب ایک دن میں دو اور تین بار بجلی چلی جاتی تھی لیکن پچھلے سال انسٹی ٹیوٹ نے کیمپس میں تقسیم کے نظام کو بہتر کیا ہے جس کی وجہ سے بجلی کٹنے کے معاملے پہلے کی طرح متواتر نہیں ہوتے۔

توانائی سے بھرپور انجیئنر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’کانپور کا موسم گرما بھی کمپیوٹر کے لیے ایک خطرناک چیز ہے۔اس کے علاوہ حقیقت یہ ہے کہ مشینیں خود بہت زیادہ گرمی پیدا کرتی ہیں۔‘‘ اس کے لیےبھارت میں ممکنہ طور پر سب سے بڑے ایئر کنڈیشننگ سسٹم میں سے ایک کونصب کرنے کی ضرورت تھی جو یہاں امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یوایس ایڈ) کی مالی مدد سے بنایا گیا ۔

۷۰۴۴ کے مقام سے کوریڈور کے اس پار ایک چھوٹا کھڑکی والا کمرہ ہے جس میں انسٹی ٹیوٹ کا پہلا کمپیوٹر، ایک آئی بی ایم ۱۶۲۰ ہے، جو ۱۹۶۳ء میں یوایس ایڈکی مالی مدد کے تحت حاصل کیا گیا تھا۔۷۰۴۴ کے مقابلے میں ایک سو گنا سست لیکن پھر بھی مفید ہے کیونکہ اسے آج کمپیوٹر پروگرامنگ کے طریقہ کارکے بارے میں آئی آئی ٹی طلبہ اور غیر انسٹی ٹیوٹ کے اہلکاروں کو تربیت دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مہابالا کے مطابق بھارت میں تقریباً ہر ۱۶۲۰کمپیوٹر سینٹر کے عملے میں آئی آئی ٹی سے تربیت یافتہ لوگ موجود ہیں۔

کمپیوٹر کے سب سے زیادہ بارآور اس کے پہلے پانچ سال ہوتے ہیں جس کے بعداس  کی سبکدوشی کا عمل شروع ہو جاتاہے۔ اس لیے جیسے جیسے کمپیوٹرچلتے ہیں۱۶۲۰ء کو متروک سمجھا جاتا ہے۔ مہابالا نے وجہ بتاتے ہوئے کہا ’’کمپیوٹر میں الیکٹرانک سرکٹ پرانے نہیں ہوتے لیکن میکانیکی پرزے پرانے ہو جاتے ہیں اور چونکہ کمپیوٹر بنانے والے نئے ماڈل بناتے رہتے ہیں، تو کچھ عرصہ کے بعد آپ کو پرانی مشین کے فاضل پرزے نہیں ملتے۔ آپ ۱۶۲۰ جیسا کمپیوٹر استعمال کرنا جاری رکھ سکتے ہیں،بالخصوص بھارت میں جہاں کمپیوٹر ابھی تک عام نہیں ہیں،لیکن آخر کار ایک پرانی مشین آپ کو الگ تھلگ کر دیتی ہے جس سے آپ دوسری کمپیوٹرائزڈ فرموں یا اداروں سے مواصلاتی عمل انجام نہیں دے سکتے۔ آئی آئی ٹی میں ہم ۱۶۲۰ کو بنیادی طور پر ایک کیلکولیٹر کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں لیکن ہم اسے ۷۰۴۴ کے ساتھ ملا کر سختی سے ان پٹ آؤٹ پٹ سرگرمیوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ میں اسے ٹیلی ویژن اسکرین پر جوابات دکھانے ، موسیقی لکھنے  اور گرافک ڈیزائن تیار کرنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہوں۔‘‘

ہال کے نیچے ایک غیر معمولی طور پر بے ترتیب دفتر میں آئی آئی ٹی کے کمپیوٹر سینٹرکے سربراہ ۳۶ سالہ ڈاکٹر وی راجہ رمن بیٹھے تھے۔ نوجوان ڈائریکٹر کی تعلیمی کارکردگی کے سہرے کی فہرست طویل اور متاثر کن ہے۔ ان میں دہلی یونیورسٹی، بنگلور کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، امریکہ کے مسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی )اور یونیورسٹی آف وِسکونسن سے درجہ وار ڈگریاں؛ وِسکونسن اور کیلیفورنیا اورآئی آئی ٹی کانپور کی یونیورسٹیوں میں فیکلٹی کے عہدے شامل ہیں۔

کیا ڈاکٹر راجہ رمن عام فہم الفاظ میں وضاحت کریں گے کہ کمپیوٹر کیسے کام کرتا ہے؟ پروفیسر نے خوشی خوشی عام فہم زبان میں سمجھانا شروع کیا۔ ’’اصل میں کمپیوٹر کو حساب لگانے والی مشینوں کے طور پر سوچا جاتا تھا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان سے حساب لینے  کے علاوہ بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کمپیوٹر بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ پروگرامر مسائل کو آسان مراحل میں تقسیم کر سکے۔‘‘

جیسا کہ ڈاکٹر مہابالا بتاتے ہیں کہ کمپیوٹر احمق ہیں۔ عام آدمی کبھی کبھی ان کے بارے میں سوچتاہے کہ ان میں انسانی خصوصیات ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسے عمل کا جذباتی ردعمل ہے جسے وہ پوری طرح سے نہیں سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پرکیک بنانے کے عمل کو لے لیں۔ ترکیب ابتدائی کاموں کے مخصوص سیٹ کے بارے میں بتاتی ہے: جب یہ دو کپ آٹے کے بارے میں بتاتی ہے تو یہ کیک بنانے والے  کو الماری میں جانے، آٹا اتارنے، آٹے کا ڈبہ کھولنے اور پیالوں میں پیمائش کرنے کو نہیں کہتی۔ یہ اقدامات کیک بنانے والے کو خود کرنے ہوتے ہیں کیونکہ یہ فرض کرنا عام فہم ہے۔ چونکہ مشین میں عقل نہیں ہوتی، اس لیے وہ کچھ بھی فرض نہیں کرتی۔ اگر کوئی مشین کیک بنا رہی ہو تو اسے آٹے کے لیے الماری میں جانے کی ہدایت دینی  پڑتی ہے، وغیرہ۔ کمپیوٹر کے کام کرنے کے لیے، انسان کو اسے ایک درست ترکیب اور دیگر تمام عوامل دینا ہوں گے جن کو انسان خود بخود کسی مخصوص صورت حال میں موجود ہونا فرض کرے گا۔

اس لیے یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ آپ کمپیوٹر کو کیا بتانا چاہتے ہیں، آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ اس پیغام کو کس طرح پہنچانا چاہتے ہیں۔ صرف ایک چیز جو کمپیوٹر سمجھتا ہے وہ عددہے۔ لیکن دوسری طرف، اسے مختلف مخصوص الفاظ کو سمجھنے کے قابل ہونا چاہیےجیسے کہ میڈیکل، لائبریری سائنس، کاروبار وغیرہ۔ اس لیے ان الفاظ میں سے ہر ایک کو الگ الگ ریاضیاتی زبان میں ترجمہ کرنا ہوگا۔ زیادہ تر کمپیوٹر داخلی لغات کے ذریعے کئی زبانوں کوخود میں سمو سکتے ہیں۔ مشین نئی زبان کا اپنی عددی زبان میں ترجمہ کرتی ہے، اپنا حساب اسی طرح کرتی ہے، اور اپنے کام اور نتائج کو دوبارہ ان پٹ کے زبان میں ترجمہ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ۷۰۴۴ ایک تیار شدہ الفاظ کے ساتھ آیا جو صرف دو اکائیوں کا استعمال کرتا ہے، صفر اور ایک ۔۷۰۴۴کے لیے ۲۰ صفر کے سیٹ کا مطلب کچھ ہے۔ اور  اپنی ’میموری‘ میں یہ تقریباً ۳۲۰۰۰ الفاظ یا صفر اور ایک کا استعمال کرتے ہوئے ترتیب کو محفوظ کر سکتا ہے۔

آج کمپیوٹر کی سیکڑوں زبانیں ہیں، ایک بنیادی الجبرا کی  زبان کی تمام موافقت جس کے ذریعے پروگرامر کمپیوٹر کو نمبروں کی شکل میں ایک مسئلہ پیش کرتا ہے۔  لائبریرین ایس این او بی اوایل استعمال کرتے ہیں۔اے ایل جی او ایل  ایک بین الاقوامی کمپیوٹر زبان ہے جو سائنسی اور انجینئرنگ کے مسائل کے اظہار کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

ڈاکٹر راجہ رمن نے پھر کمپیوٹر اصطلاحات ’ہارڈ ویئر‘ اور’سافٹ ویئر‘ کو بیان کیا۔ جب کمپیوٹر اصل میں نمودار ہوئے تو یہ خود مشین تھے یعنی ’ہارڈ ویئر‘ جو کہ مہنگا تھا۔ ان میں آج کے ٹرانزسٹرز اور مربوط سرکٹ شامل نہیں تھے جوجامع اور دیرپا ہیں اور ابتدائی دنوں میں نسبتاً غیر جدیدہونے کی وجہ سےمشینیں پیچیدہ پروگراموں کو سنبھال نہیں سکتی تھیں۔

ڈاکٹر مہابالا نے کہا ’’بھارت کے لیے کمپیوٹر سافٹ ویئر کی صنعت کو ترقی دینا ممکن ہو گا۔ ان ممالک کے سافٹ ویئر کے آرڈرز جہاں پروگرامنگ کی لاگت زیادہ ہے یہاں بہت کم قیمت پر لیے جا سکتے ہیں اور ریاستوں یا یورپ کو واپس بھیجے جا سکتے ہیں اوربھارت میں ان کو دستیاب کروانے والے اب بھی بہت اچھا منافع کما سکتے ہیں۔

مستقبل کے کمپیوٹر کتنے ’ذہین‘ ہوں گے؟ ڈاکٹر راجہ رمن نے اس پر کہا ’’بنیادی رشتہ مشین کا انسان پر انحصار ہے اور وہی رہے گا۔ لیکن مشین ان انسانوں سے کہیں زیادہ تیز اور درست ہو گئی ہے جو اسے پروگرام کرتے ہیں۔ یہ ایک سیکنڈ کے دو دسویں حصے میں ہزارکا حساب کتاب کرسکتی  ہے۔ ضائع ہونے سے بچانے کے لیے مستقبل قریب کے کمپیوٹر کو ۲۰ پروگرامرز فراہم کریں گے۔ یہ چند سیکنڈوں میں سبھی ۲۰ سے ڈیٹا جذب کر لے گا، ان بیس مسائل پر چار سیکنڈتک کام کرے گا ۔ ہر ایک پر ۲سیکنڈ۔ اور جوابات پیدا ہونے تک اس میں دخل اور کیلکولیشن کا عمل جاری رہے گا۔ چونکہ ہر انفرادی پروگرامر اور کمپیوٹر کے درمیان ان پٹ اور ردعمل عملی طور پر فوری ہوتے ہیں، اس لیے پروگرامر واقعی کمپیوٹر کے ساتھ اپنے تعلقات میں کسی رکاوٹ سے آگاہ نہیں ہوگا۔

اس لیے  یقینی طور پر جسے ہم تیسری نسل کا کمپیوٹر کہتے ہیں وہ پرانے ماڈلز کے مقابلے زیادہ تیزی سے کام کرنے کے قابل ہوں گے۔ لیکن کمپیوٹر کے اپنےحدود ہیں۔ مثال کے طور پر، اس میں فرض کرنے کی صلاحیت  نہیں ہے۔ یہ صرف ان مسائل کو حل کر سکتا ہے جنہیں محدود تعداد میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال کمپیوٹرکے ذریعہ چیکرس جیتنے کی صلاحیت ہے لیکن شطرنج نہیں، جس میں لامحدود امکانات ہیں۔

انجینئرز نے مصنوعی ذہانت کے سمیلیٹر بنائے ہیں لیکن کامیابی سے کام کرنے کے لیے مشین کو حل کے طریقے اور حل شدہ مثالوں یا طریقہ کارکے بارے میں معلومات فراہم کرنا پڑتا ہے۔ جب تک اس کی کوئی مثال نہ ہو، یہ اپنے ذخیرہ شدہ طریقوں سے صحیح طریقہ کا انتخاب نہیں کر سکتا۔ جب کمپیوٹر کو پہلی بار چیکرس کھیلنا سکھایا گیا تو اسے گیم کے بنیادی اصولوں کے ساتھ پروگرام کیا گیا۔ ایک پروگرامر اس کے خلاف کھیلتا اورشروع میں مشین ہمیشہ ہار جاتی کیونکہ اس کے پاس کوئی تجربہ نہیں تھا۔ جب اسے کسی خاص صورت حال میں شکست ہوتی  تو پروگرامر اسے شکست سے دوچار کرنے والی چال کے لیے منفی نمبر دیتا تھا۔ اس کے بعد یہ ہارنے والی چالوں کے امتزاج کو کبھی نہیں دہراتی تھی۔ برسوں تک کھیلنے کے بعد، اس نے ہارنے والی  تمام چالوں کو مسترد کر دیا اوریہ  ہمیشہ جیت جایا کرتی۔

انسانوں کو کبھی بھی اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیےکہ کمپیوٹر ان کی جگہ لے سکتا ہے۔ میرے خیال میں آپ ایک جنرل کے بارے میں پرانے لطیفے سے اس کاموازنہ کر سکتے ہیں جو سپاہی کو ڈاک خانے بھیجتا ہے تاکہ وہ کچھ ڈاک ٹکٹ لاکر دے سکے۔ وہ سپاہی ڈاک ٹکٹ لے کر واپس نہیں آتا، اس لیے جنرل اسے ڈھونڈنے کے لیےخود ڈاک خانے جاتا ہے۔ وہاں وہ دیکھتا ہے کہ سپاہی ہاتھ میں ڈاک ٹکٹ لیے کھڑا ہے۔ فطری طور پر جنرل جاننا چاہتا ہے کہ آخرسپاہی اس کے پاس ڈاک ٹکٹ کیوں نہیں لایا۔ سپاہی جواب دیتا ہے کہ اس کے احکامات میں ڈاک ٹکٹوں کو واپس لانے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیاتھا۔ کمپیوٹر زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ وہ ہمیشہ آپ کے حکم پر عمل کرتے ہیں لیکن اپنی طرف سے کچھ سوچ نہیں سکتے۔

اس مضمون کی اشاعت پہلے پہل اگست ۱۹۷۰ء میں عمل میں آئی تھی۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے