موسمیاتی تبدیلی اور بے اختیاری

امریکی فلبرائٹ اسکالر اور ملٹی میڈیا صحافی جیسن اسٹرودر اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی معذور افراد کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔

ظہور حسین بٹ

December 2023

موسمیاتی تبدیلی اور بے اختیاری

جیسون اسٹرودر(درمیان میں) نئی دہلی میں واقع جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں طلبہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے۔ (تصویر بشکریہ انامیکا تنیجا)

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں معذور افراد کی تعداد کا تخمینہ ایک اعشاریہ تین بلین ہے۔ ان اعداد و شمار کی رُو سے رُوئے زمین پر بسنے والی تقریباً ۱۶ فی صد انسانی آبادی کو کسی نہ کسی بے اختیاری کا سامنا ہے۔ عام انسانوں کے مقابلے ایسے افراد کو موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک معذور شخص کی قدرتی آفت کے بعد علاج تک رسائی منقطع ہو سکتی ہے یا اسے نقل و حرکت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ملٹی میڈیا صحافی اور ۲۰۲۳ فلبرائٹ (ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشیا) ریجنل ریسرچ ایوارڈ یافتہ جیسن اسٹرودر نے ہندوستان، سری لنکا اور مالدیپ کا سفر کیا تاکہ تحقیق کی جا سکے کہ موسمیاتی تبدیلی معذور افراد کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔ وہ نیو جرسی میں واقع مونٹ کلیئراسٹیٹ یونیورسٹی میں ایک معاون پروفیسر کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں جہاں انہوں نے صحافت کے کورسس تیار کیے۔ ان میں سے ایک ’میڈیا میں معذوری کی عکاسی اور معذوری پر خبرنگاری کیسے کی جائے‘ سے متعلق ہے۔

اسٹرودر نے رواں برس ستمبر میں امریکی محکمہ خارجہ کے تعاون سے نئی دہلی، ممبئی، حیدرآباد، چنئی اور کولکاتہ سمیت مختلف ہندوستانی شہروں میں کئی تقریبات میں شرکت کی۔ اس دوران انہوں نے معذوری اور موسمیاتی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرنے والے صحافیوں، طلبہ، کارکنوں اور سول سوسائٹی تنظیموں سے بات چیت کی۔ اسٹرودر نے اپنی دستاویزی فلم ’’ڈیزاسٹر اینڈ ڈِس ایبی لیٹی‘‘ بھی دکھائی جسے امریکی محکمہ خارجہ کی امداد سے اوڈیشہ میں فلمایا گیا ہے۔پیشِ خدمت ہے اسٹرودر سے لیے گئے ایک انٹرویو کے اقتباسات:

کس چیز نے آپ کو معذور افراد پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی؟

۲۰۱۴ءمیں خبرنگاری کے لیے میں نے فلپائن کے شہر ٹاکلوبان کا دورہ کیا تھا جو سمندری طوفان ہائیان سے تباہ ہو گیا تھا۔ کئی ہزار لوگوں کی اس میں موت ہو گئی تھی اور یہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا تھا۔

میری بینائی کمزور ہے اورعام حالات میں مجھے گھومنے پھرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ لیکن اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں ۲۰۰ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں، جو اپنے ساتھ ملبہ بھی لائی ہوں، سے کیسے بچ سکتا ہوں؟ میں نے وہیل چیئر کا استعمال کرنے والوں، نابینا، سماعت کی قوت سے محروم افراد، آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر )ایک ایسا ذہنی مرض جس میں مریض کو بات چیت، میل جول اور اپنے حواس پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے) میں مبتلا افراد یا ان کنبوں جن کے بچے متعدد معذوریوں کا شکار ہیں، کے بارے میں یہ سوچا کہ قدرتی آفات یا شدید موسمی واقعات کا ان پر کس طرح اثر پڑتا ہوگا۔ بس یہیں سے اس سفر کی شروعات ہوئی۔

ہمیں بھارت میں فلبرائٹ اسکالر کی حیثیت سے اپنے کام کے بارے میں بتائیں۔

دو سال پہلے جب میں فلبرائٹ کے لیے درخواست دے رہا تھا تو مجھے اس نایاب ریجنل ایوارڈ کے بارے میں معلوم ہوا جہاں میں اپنے کام کے لیے تین ممالک کا انتخاب کر سکتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ان میں سے ایک ہندوستان ہو گا۔ مجھے معذوری اور موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والی اوڈیشہ کے شہر بھوبنیشور میں واقع کچھ تنظیموں کے بارے میں معلوم ہوا۔ ان میں سے ایک سے میں نے رابطہ کیا جس کا انتظام و انصرام سابق فلبرائٹ فیض یافتہ آشا ہنس دیکھتی ہیں۔ ’موسمیاتی تبدیلی معذور افراد کو کس طرح متاثر کر رہی ہے؟‘ کی تحقیق پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے میں نے اپنے فلیڈ ورک کو انجام دینے کے لیے اوڈیشہ میں تین ماہ گزارے۔

اپنی تحقیق کے دوران میں نے پایا کہ اوڈیشہ نے اپنی تباہی کے انتظام کی منصوبہ بندی میں معذور افراد کو شامل کرنے میں کچھ قابل قدر پیش رفت کی ہے۔ ۱۹۹۹ میں جب ایک سپر سائیکلون ریاست میں تقریباً دس ہزار لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنا تو یہاں تب معذور افراد کے لیے کام کرنے والی ایک نوخیز کمیونٹی موجود تھی۔

اب مقامی سطح پر اور مخصوص برادریوں میں معذور افراد کے لیے کام کرنےو الے متعدد گروپ ہیں جو معذور افراد کو بحفاظت باہر نکالنے اور محفوظ طریقے سے پناہ دینے کے بارے میں شعور اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے معذوری اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آفات کے بارے میں بہت آگاہی پیدا کی ہے۔

ایک صحافی کے طور پر آپ کے کام نے آپ کی تحقیق میں کس طرح مدد کی ہے؟

میں نے ایک نامہ نگار کے طور پر تقریباً ۲۰ برس تک بیرون ملک کام کیا ہے۔ میری اپنی معذوری کا تجربہ، میرے تجسس اور میرے کام نے میرے موجودہ منصوبے میں کافی مدد کی ہے۔

میں نے بھوبنیشور میں مقیم دستاویزی فلمیں بنانے والے سنیہاسیس داس کے ساتھ مل کر کام کیا۔ وہ ’دی نیکڈ آئی‘ کے نام سے ایک پروڈکشن کمپنی چلاتے ہیں۔ ہم نے مشترکہ طور پر اوڈیشہ کی آفات کی منصوبہ بندی کو زیادہ قابل رسائی اور جامع بنانے کی کوششوں پر ایک مختصر فلم تیار کی ہے۔ اس کی بھی نشاندہی کی کہ کہاں ابھی بہتری کی گنجائش ہے۔

ہمیں اپنی دستاویزی فلم ’’ڈیزاسٹر اینڈ ڈِس ایبی لیٹی ‘‘ کے بارے میں بتائیں۔

میں نے (اوڈیشہ میں اپنے قیام کے دوران) خلیج بنگال کے ساحل پر واقع پوری کا سفر کیا جو اکثر شدید طوفانوں سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ حالانکہ اوڈیشہ انخلا اور پناہ گاہوں سے متعلق پروٹوکول میں ایسے لوگوں، جنہیں خطرہ لاحق ہوتا ہے، کو شامل کرنے کی پالیسی پر عمل کرتا ہے لیکن جب انہیں ۲۰۱۹ میں سمندری طوفان فانی سے بچنے کے لیے اپنے علاقوں کو خالی کرنا پڑا تھا تو وہاں کے بہت سے لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔

تاہم گنجام ضلع میں ریمپ اور قابل رسائی باتھ رومس جیسی سہولیات سے لیس کچھ پناہ گاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔ مجھے یہ دلچسپ لگا کہ گنجام میں کچھ تو ٹھیک کام ہو رہا ہے لیکن پوری میں ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جن کا میں اپنی رپورٹنگ میں موازنہ کرنا چاہتا تھا۔ داس، ان کی ٹیم اور میں نے ایک ڈرون پائلٹ اور متعدد مترجمین کے ساتھ دس رکنی پروڈکشن عملہ تشکیل دیا کیونکہ ہم نے جن لوگوں کا انٹرویو کیا وہ صرف تیلگو میں ہی بات کرتے تھے۔

لہٰذا ہمیں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنے کی ضرورت تھی جو تیلگو اور اوڈیا دونوں بول سکے۔ میرے ساتھ ایک ریسرچ اسسٹنٹ تھا جو میرے لیے انگریزی میں ترجمہ کرتا تھا۔ یہ مشکل ترین پروڈکشن میں سے ایک تھا جس پر میں نے کام کیا ہے۔

آپ کو سامعین کی طرف سے کس طرح کا رد عمل ملا؟ کیا اسے مزید ہندوستانی شہروں اور زبانوں میں دکھانے کا کوئی منصوبہ ہے؟

اب تک مجھے جو ردعمل ملا ہے وہ کافی حد تک مثبت رہا ہے۔ یہ بہت سے سامعین کے لیے نیا تھا اور جن طالب علموں سے میں نے بات کی ان کے دلچسپ اور فکر انگیز سوالات تھے۔ فلم میں پہلے سے ہی کئی زبانوں تیلگو، اوڈیا اور انگریزی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں انگریزی سب ٹائٹلس بھی موجود ہیں۔ میں اس فلم کے لیے ایک آڈیو ڈسکرپشن بھی تیار کروں گا جو ایک قسم کا بیانیہ ہوتا ہے اور بصارت سے محروم سامعین کے لیے اسکرین پر ایکشن اور تصویر کو بیان کرتی ہے۔

میں اوڈیا زبان کے سب ٹائٹلس اور آڈیو ڈسکرپشن تیار کرنے کے طریقوں پر بھی غور کر رہا ہوں۔

ہندوستان میں صحافت کے طلبہ اور ماحولیاتی کارکنوں کے ساتھ آپ کی مصروفیات کے اہم نکات کیا ہیں؟

موسمیاتی تبدیلی ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تر لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اوڈیشہ میں موسمیاتی تبدیلی کے مشاہدین سے میں نے ملاقات کی جنہوں نے اپنی تحقیق میں پسماندہ آبادیوں پر توجہ مرکوز کی ہے۔ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ معذور افراد کو کس قدر سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ اوڈیشہ اور نئی دہلی میں جن معذور افراد یا برادریوں سے ملا وہ بھی اس کے خطرات سے واقف ہیں۔

نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں صحافت کے طلبہ سے میں نے بات کی جن میں سے کچھ معذور بھی تھے۔ میں نے ان سے اپنی تحقیق کے بارے میں بات کی اور انہیں اپنی دستاویزی فلم بھی دکھائی۔طلبہ نے فلم کی تیاری کے تعلق سے مجھ سے کئی دلچسپ سوالات کیے۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے