سرپرستانہ نظام کی تلاش

فلبرائٹ- نہرو فیلو لارین ویک نے سرپرستی کے مختلف پہلوؤں اور بھارت کے کاروباری ماحولیاتی نظام پر اس کے ممکنہ اثر ات پر تحقیق کی ہے۔

پارومیتا پین

September 2021

سرپرستانہ نظام کی تلاش

۱۹۔۲۰۱۸میں اپنے فلبرائٹ۔ نہرو فیلو شپ کے لیے لارین ویک نے اَیٹ لارج امیدوار کے طور پر درخواست دی مگر بنیادی طور پر وہ حیدرآباد کے انڈین اسکول آف بزنس سے وابستہ تھیں۔ تصویر بشکریہ لارین ویک

مردوں سے زیادہ خواتین کو کام کرنے والی افرادی قوت سے علاحدگی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اس حقیقت کے یہ اعداد و شمار ہی تھے جس نے لارین ویک کو
فلبرائٹ ۔ نہرو فیلو شپ کے تحت سفر کے لیے بھارت جانے کی ترغیب دی۔ وہ ہمیشہ سے سرپرستی سے متعلق موضوعات میں دلچسپی رکھتی تھیں ۔ ان کی دلچسپی اس امر میں بھی تھی کہ کیسے اس طرح کی با اختیار پیشہ ورانہ تنظیمیں تشکیل دی جا سکتی ہیں جہاں مرد و زن دونوں پھل پھول سکیں ۔ اس میں دلچسپی رکھنے والی لارین نے اس سے مزید واقفیت کی خاطرفلبرائٹ ۔ نہرو فیلو شپ کے لیے درخواست دی۔ اپنے پروجیکٹ کے دوران لارین نے حیدرآباد کے انڈین اسکول آف بزنس میں فلبرائٹ ۔ نہرو کی طالبہ محقق کی حیثیت سے خواتین سرپرستی کے اثرات اوربھارت کی افرادی قوت کے صنفی نمونے پر اس کے اثرورسوخ پر تحقیق کی۔

برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد لارین نے قریبی سلیکون ویلی میں خدمات انجام دیں جہاں انہوں نے مقامی سرکاری ہائی اسکولوں میں نویں جماعت کے طلبہ کی رہنمائی کی۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے ان کے ساتھ قریب قریب ۵ برس تک کام کیا اور اس طرح میں نے خاص طور پر رہنمائی کے شعبے میں دلچسپی پیدا کرلی۔‘‘ بعدازاں وہ نیویارک شہر منتقل ہو گئیں جہاں انہوں نے طلبہ کی سرپرستی جاری رکھی۔ساتھ میں وہ ایک کثیر القومی سرمایہ کاری مینجمنٹ فرم، ڈی ای شا میں کام بھی کرتی رہیں جس کے دفاتر بھارت میں بھی ہیں۔

۲۰۱۹۔۲۰۱۸ میں اپنی فیلو شپ کے لیے لارین نے اَیٹ لارج امیدوار(ایک ایسا نمائندہ جسےکسی خطے کی نمائندگی کے لیے چنا جائے) کے طور پر درخواست دی تھی لیکن ابتدائی طور پر انہیں حیدرآباد میں قیام کا موقع ملا ۔ ان کی تحقیق کا بیشتر حصہ معیاری اور سماجی نوعیت کا تھا ،لہذا انہوں نے بھارت میں اپنے قیام کے دوران ۱۷ ریاستوں کا دورہ کیا۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے قریب ۱۰۰ کاروباری پیشہ وروں کا انٹرویو لیا۔دراصل میں ان لڑکیوں کا انٹرویو کرنا چاہتی تھی جو ملک کے الگ الگ علاقوں میں مختلف کاروباری پروگراموں میں حصہ لے رہی تھیں۔‘‘ مگرحقیقت یہ ہے کہ ۱۸ برس سے کم عمر کے لوگوں کے انٹرویوکی اجازت کا ملنا اکثر مشکل کام ہوسکتا ہے ۔لہٰذا انہوں نے اپنی توجہ نوجوان کاروباری پیشہ وروں پر مرکوز کر دی۔ وہ کہتی ہیں ’’میں زیادہ تر کالج کیمپس میں جایا کرتی تھی۔ میں نے کولکاتہ کے ساتھ ساتھ گجرات اور نئی دہلی کے مختلف کاروباری اسکولوں کا دورہ بھی کیا۔‘‘ لارین کو اسٹارٹ اپ انڈیا سے مختلف ذرائع ملے جو حکومت ہند کی بھارت میں کاروباری صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اہم پہل ہے ۔ وہ مزیدکہتی ہیں ’’میں نے ان پروگراموں میں کاروباری پیشہ وروں سے کاروباری پیشہ وری اور سرپرستی کے تجربات کے بارے میں سوالات کئے اور بہت ساری معلومات حاصل کیں۔‘‘

لارین کی گہری تحقیق سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ سرپرستی کے پروگراموں کو تحریری طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’میرے خیال میں بہت سارے لوگ سرپرستی کے تعلق سے غیر رسمی رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت میں عزم کرنے جیسا نہیں ہوتا۔‘‘وہ مزیدکہتی ہیں’’سرپرستی سے متعلق تعلقات کو باضابطہ کیا جانا چاہئے اور شروع سے ہی توقعات طے کی جانی چاہئیں۔خواتین کاروباری پیشہ وروں کے لیے لارین نے بعض مخصوص سفارشات پیش کی ہیں۔ خواتین سرپرستی سے متعلق پروگرام کی خواہاں ہیں۔ لیکن میں نے جن خواتین کاروباری پیشہ وروں سے بات کی ان میں سے بعض ایسے مخصوص پروگرام نہیں چاہتیں جن کا مقصد صرف خواتین ہوں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کےساتھ مردوں کی طرح ہی برتاؤکیا جائے اوروہ مرد اور خواتین دونوں کے تعلق سے تیار کیے گئے عمومی پروگراموں کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔‘‘ انہوں نے اسے صنفی فرق کو کم کرنے کے ایک طریقے کے طور پر خیال کیا۔

لارین کے کام کا ایک اہم پہلو سرپرستی سے متعلق طویل مدتی پروگرام تیار کرنے کی خواہش ہے۔ وہ کہتی ہیں’’میں جانتی ہوں کہ بڑے کارپوریشنوں کو ہر سال سماجی بہبود کے اقدامات کے لیے ایک مخصوص حصہ دینا ہوتا ہے۔ ان وسائل کو خاص طور پر نوجوان کاروباری پیشہ وروں اور اعلیٰ درجے کے کالجوں سے باہر کے طلبہ کی خاطر سرپرستی کے طویل مدتی پروگرام کی تیاری اور اس کی حمایت کے لیے استعمال کرنا بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کےعلاوہ قائم شدہ کارپوریشنوں کو ان پروگراموں کوشروع کرنے کے اہل بنانے کا مطلب ان طویل مدتی پروگراموں کو قابل عمل بنانے کے لیے ادارہ جاتی معلومات اور ڈھانچے تک رسائی بھی ہے۔‘‘

لارین اب مشی گن لا اسکول سے جیورِس ڈاکٹر کی ڈگری کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف مشی گن کے ٹوبمین کالج آف آرکیٹیکچر اینڈ اربن پلاننگ سے ماسٹر آف اربن اینڈ ریجنل پلاننگ کے حصول کے لیے ایک ساتھ دوہرے پروگرام میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’اگرچہ میں جسمانی طور پر بھارت میں نہیں ہوں لیکن بھارت اب بھی میری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔‘‘ لارین جنوبی ایشیا اور ہندی زبان کے مطالعے پرمرکوز مخصوص کورس ورک بھی کررہی ہیں۔ یہ تمام چیزیں ان کے لیے مفید ثابت ہونے والی ہیں کیوں کہ وہ فلبرائٹ ۔ نہرو فیلو شپ کے دوران اپنے تحقیقی نتائج کی بنیاد پر اپنی کتاب تصنیف کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے