اردو کے حوالے سے جہانِ نو کی جستجو

اے آئی آئی ایس کی سابق طالبہ جے شیلبی ہاؤس اردو سیکھنے سے متعلق اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ بھی بتا رہیں کہ کس طرح اردو زبان نے ان کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ کریئر کی راہ متعین کی۔

ظہور حسین بٹ

November 2023

اردو کے حوالے سے جہانِ نو کی جستجو

جے شیلبی ہاؤس نے لکھنؤ کے امیریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز میں چار ماہ گزار کر اردو زبان سیکھی۔ (تصویر بشکریہ جے شیلبی ہاؤس)

جے شیلبی ہاؤس کا اردو سے تعارف ایک جنوب ایشیائی دوست کے معرفت ہوا ۔ دوست نے جب انہیں بعض اردو میمس دکھائے تو وہ اپنی ہنسی روک نہیں پائیں۔ اس وقت ریاست ٹینیسی کی وینڈر بِلٹ یونیورسٹی سے مڈل ایسٹرن اینڈ ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں بیچلر کررہی ہاؤس کی خواہش مذکورہ طنز و مزاح کا حصہ بننے کی ہوئی۔ تاہم جب اس دوست نے ہاؤس کو میمس کی وضاحت کرنا شروع کی تو ہاؤس کو حیرانی ہوئی کہ اس میں مضحکہ خیز کیا ہے کیوں کہ مزاحیہ حصہ تو ترجمے کی نذر ہوگیا تھا۔

زبان سے متعلق اسی تجسس نے ہاؤس کو زبان کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے اردو سیکھنے کی طرف مائل کیا مگر یہ آسان نہیں تھا۔ درحقیقت وہ خود سے اردو سیکھنے کی قائل نہیں تھیں۔ ہاؤس کہتی ہیں’’یہ واقعی مشکل ہے۔‘‘بھارت میں تعلیم حاصل کرنے کا تجربہ رکھنے والے ان کے پروفیسروں نے انہیں بتایا کہ لکھنؤ میں امیریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز (اے آئی آئی ایس) اردو سیکھنے کے لیے ’’انتہائی معیاری‘‘ادارہ ہے۔ وینڈربِلٹ یونیورسٹی میں اپنے آخری سمسٹر کے دوران انہوں نے اے آئی آئی ایس لکھنؤ میں دیگر امریکی طلبہ کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ چار ماہ تک تعلیم حاصل کی۔ پیش ہے ہاؤس کے ساتھ لیے گئے انٹرویو کے بعض اقتباسات۔

براہ مہربانی ہمیں اپنے موجودہ کام کے بارے میں بتائیں۔

میں فی الحال یونیورسٹی آف واشنگٹن (یو ڈبلیو) میں ڈیپارٹمنٹ آف ایشین لینگویجیز اینڈ لٹریچر کے لیے ہندی میں پری ڈاکٹورل انسٹرکٹر کے طور پرخدمات انجام دے رہی ہوں۔ میں یونیورسٹی میں سماجی و ثقافتی بشریات کی پی ایچ ڈی کی طالبہ ہوں جہاں میری تحقیق بحرالکاہل کے شمال مغربی حصے میں انسانوں، جانوروں اور ماحولیات کے درمیان تعلقات پر مرکوز ہے۔ کووِڈ سے پہلے میں نے پاکستان کے کراچی میں انسانوں کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حرارت پر توجہ مرکوز کی لیکن وبائی حالات نے سفر اور فیلڈ ورک کو ناممکن بنا دیا۔

کیا آپ ہمارے ساتھ اردو سیکھنے کے عمل کی بعض یادیں شیئر کرسکتی ہیں ؟ اور یہ بھی کہ آپ کو زبان کی کون سی صنف زیادہ پسند آئی ؟

اردو سیکھنے کی میری ابتدائی یادیں کافی تناؤ بھری تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں بعض ایسی آوازوں سے پریشان تھی جن کا میں درست تلفظ نہیں کر پاتی تھی ۔ میرے لیے ’’گھر‘‘ کا لفظ خاص طور پر مشکل تھا۔ میں اپنے آخری نام کا اردو میں لغوی ترجمہ نہیں کر پاتی تھی اور قواعد کے بعض تصورات بھی میں سمجھ نہیں پاتی تھی۔ میں غلطیاں کرنے سے ڈرتی تھی، لہذا میں نے کلاس کے بعد ہر رات گھنٹوں پڑھائی میں گزارے۔

مجھے یاد ہے کہ میں ابتداء ہی میں حوصلہ شکنی کے احساس سے گھر گئی۔ میرے دل میں خیال آتا کہ میں کبھی بھی لوگوں کے ساتھ آسانی سے بات چیت کرنے یا بولی جانے والی اردو کو سمجھنے کے لیے اس زبان میں ’’اچھی‘‘ نہیں ہو سکتی ۔ تاہم زبان سیکھنے کی مسلسل کوشش اور جستجو سے میں نے ان صلاحیتوں کو نکھارا۔

ابتدائی طور پر مجھے سیاسی تقریروں، خبروں، فلموں اور مختصر کہانیوں میں سب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ سعادت حسن منٹو کا افسانہ’’کھول دو‘‘پڑھنا اور سمجھنا میرے لیے ایک اہم لمحہ ثابت ہوا۔ افسانہ کے اختتام نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔اس سے میرے اندر زیادہ سے زیادہ اردو ادب پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔

اردو کی طالبہ کی حیثیت سے لکھنؤ میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟ براہ مہربانی ہمارے قارئین کے ساتھ کچھ کہانیاں مشترک کریں۔

جب میں نے پہلی بار لکھنؤ کا سفر کیا تو میں نے امریکہ سے باہر اتنا طویل وقت کبھی نہیں گزارا تھا۔ مجھے لکھنؤ میں ایک شاندار میزبان خاندان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا جہاں میرا خیر مقدم ہوا اور میں نے خود کو محفوظ محسوس کیا۔ مجھے شہر کے خوبصورت باغوں، پارکوں، مسجدوں اور درگاہوں میں جانے کا موقع ملا ۔ اس کے علاوہ مزیدار کھانا کھانے میں بڑا لطف آیا۔

انسٹی ٹیوٹ میں میرے سارے اساتذہ بہترین انسان، خوش دل اور مہربان تھے۔ ہمیں انسٹی ٹیوٹ کے اندر انگریزی کا ایک لفظ بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی، جو بعض اوقات میرے لیے کافی مشکل تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ جب تک میں امریکہ واپس نہیں چلی گئی تب تک مجھے احساس ہوپایا کہ میں نے لکھنؤ میں کتنا کچھ سیکھا ہے۔ ایک دن جب میں نیو یارک سٹی کے برائنٹ پارک میں سیر کررہی تھی تب میں نے ایک شخص کو اپنے بچوں کے ساتھ اردو زبان میں بات کرتے ہوئے سنا اور میں حیران رہ گئی کہ میں واقعی اسے سمجھ سکتی ہوں۔

میری زندگی کے بہترین دنوں میں سے ایک دن وہ ہے جب میں کاکوری گئی ۔ وہاں علاقے کی تاریخ کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ۔ گائڈ نے امیر خسرو کی لکھی ہوئی غزل ’’چھاپ تلک‘‘بھی گائی۔ اس کے بعد ہم نے کاکوری کباب کا بھی لطف اٹھایا ۔

اردو سیکھنے کے عمل نے آپ کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ کریئر کو کس طرح متاثر کیا ہے؟ کیا آپ نے اس زبان میں کچھ شائع بھی کروایا ہے؟

اردو سیکھنے کے عمل نے میری تعلیمی اور پیشہ ورانہ راہوں کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اردوسیکھنے کی میری محنت نے ہی مجھے گریجویٹ اسکول میں داخلہ لینے میں مدد کی اور مجھے یونیورسٹی آف واشنگٹن میں اپنے پہلے سال کے لیے مکمل اسکالرشپ ملی۔ دوسرے سال میں، مجھے ہندی میں فارن لینگویج اینڈ ایریا اسٹڈیز فیلوشپ ملی جس سے میرے ٹیوشن اور رہنے سہنے کے اخراجات کا انتظام ہو گیا۔ میں نے اردو تدریسی معاون، استاد اور مصنف کے طور پرخدمات انجام دی ہیں اور ان تجربات نے مجھے مؤثر طریقے سے ہندی پڑھانے کے طریقے فراہم کیے۔ میں نے امریکہ میں جنوبی ایشیا اور جنوب ایشیائی امریکیوں سے متعلق امور پر کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیموں کے لیے مواصلاتی کرداروں میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ میں نے گذشتہ سال کارٹر سینٹر میں شروع کی گئی نیو انڈیا پالیسی انیشی ایٹو کی محقق اورمدیرہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ میں نے اس سے پہلے کئی برسوں تک جنوب ایشیائی امریکی مصنفہ، وکیل، اسٹریٹیجسٹ، سہولت کار اور کارکن دیپا ایّرکے ساتھ بھی کام کیا ہے۔

کیا آپ اپنے جنوب ایشیائی دوستوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اردو زبان کا استعمال کرتی ہیں؟ آپ امریکہ میں کتنی بار اس زبان کا استعمال کرتی ہیں؟

اپنے ان دوستوں اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے میں اکثر اردو زبان کا استعمال کرتی ہوں جو اب بھی جنوبی ایشیا میں رہ رہے ہیں۔ میں اکثر فیس بک پر اپنی میزبان، اردو انسٹرکٹروں یا ڈرائیوروں کے ساتھ اردو میں بات چیت کرتی ہوں جن میں سے بہت سے لوگ انگریزی نہیں بولتے۔ اردو زبان میں ان کی خیریت دریافت کرنا بڑا اچھا لگتا ہے ۔ امریکہ میں ہندی اوراردو پڑھاتے اور پڑھتے وقت تقریبا ًہر روز میں اردو زبان کا استعمال کرتی ہوں۔ کیمپس میں جب بھی راہ چلتے میری ملاقات اپنے استاد جمیل احمد سے ہوتی ہے تومیں ان سے اردو میں بات کرتی ہوں۔ میں ہندی اور اردو خبروں کے بہت سے ذرائع کو بھی دیکھتی رہتی ہوں ۔میں ہر روز اردو زبان میں کچھ مضامین پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں۔

جنوب ایشیائی مطالعات کے لیے اردو کا علم ہونا کتنا ضروری ہے؟

اگر آپ کی تحقیق بھارت، پاکستان یا تارکین وطن طبقات پر مرکوز ہے تو اردو سیکھنا بہت اہمیت کی حامل چیز ہے۔ لوگوں کی زبان سیکھے بغیر ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اور ان کی دنیا کو سمجھنا ناممکن ہے۔ ایک علاقائی زبان سیکھنے سے جنوبی ایشیا میں ثقافت اور تاریخ کے بارے میں آپ کے شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ آپ کو انکساری سکھاتی ہے اور آپ کو اپنے بات چیت کرنے والوں کے سامنے ذمہ دار ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس زبان کو سیکھنے سے انگریزی سے پرے آپ کے غور و فکرکرنے کی صلاحیت کو وسعت ملتی ہے۔ اس سے آپ اظہار اور معنی کی ان باریکیوں کو بھی سمجھ سکتے ہیں جن کا براہ راست انگریزی میں ترجمہ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔


ٹَیگس

  • امان نظامی

    آداب۔۔۔۔۔۔۔۔ اسپین کا شکرگذار ھوں ، اردو سے متعلق مضامین پڑھ کر مسرت ھوئی ، کیا اسپین اردو میکزین کتابی شکل میں مل سکتی ھے؟ زد کیا گیا ہ

    • Md.Fakhruddin

      اسپین ایک ایسا شاندار رسالہ ہے جس سے ہند امریکہ تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔اس کے مضامین اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں۔اس کے مضامین کی زبان بڑی عمدہ ہوتی ہے۔اللہ کرے یہ رسالہ ایسے ہی آب وتاب سے نکلتا رہے۔

      تبصرہ

      2 پر “اردو کے حوالے سے جہانِ نو کی جستجو” جوابات

      1. امان نظامی نے کہا:

        آداب۔۔۔۔۔۔۔۔ اسپین کا شکرگذار ھوں ، اردو سے متعلق مضامین پڑھ کر مسرت ھوئی ،
        کیا اسپین اردو میکزین کتابی شکل میں مل سکتی ھے؟
        زد کیا گیا ہ

      2. Md.Fakhruddin نے کہا:

        اسپین ایک ایسا شاندار رسالہ ہے جس سے ہند امریکہ تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔اس کے مضامین اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں۔اس کے مضامین کی زبان بڑی عمدہ ہوتی ہے۔اللہ کرے یہ رسالہ ایسے ہی آب وتاب سے نکلتا رہے۔

      جواب دیں

      آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے