ستاروں پر کمند

اس مضمون میں ہند نژاد خلائی طبیعات کی ماہر مدھو لیکاگُوہا ٹھاکرتا خلائی طبیعات میں اپنی دلچسپی اور ناسا میں اپنے کام سے متلعق جانکاری دیتی ہیں۔

نتاشا مِلاس

January 2018

ستاروں پر کمند

۲۰۱۷ کے سورج گہن کے لیے ناسا کی سر کردہ سائنسداں،مدھو لیکا گُوہاٹھاکرتا۔ تصویر بہ شکریہ ناس

۲۱؍اگست ۲۰۱۷ء کو تمام شمالی امریکہ میں سورج گہن ہوا۔ اسے ذرائع ابلاغ نے امریکہ کا عظیم گہن قرار دیا کیوں کہ ایک خط پر واقع امریکی علاقوں میں مکمل گہن ۱۹۷۹ ء کے بعد نہیں دیکھا گیا تھا۔ ۲۰۱۷ ء کے گہن کے تجربے کے لیے ناسا کی ٹیم کی قیادت کرنے والی خلائی طبیعات کی ماہر مدھولیکا گُوہا ٹھاکر تا تھیں۔

گُوہا ٹھاکر تا کی پیدائش کولکاتہ میں ہوئی اور وہ ممبئی ، نئی دہلی اور کولو رَیڈو میں پلی بڑھیں ۔انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے خلائی طبیعات میں ماسٹر ڈگری لی اور یونیورسٹی آف ڈینور سے ڈاکٹریٹ کیا۔انہوں نے ناسا میں  لیوِنگ وتھ اے اسٹار پروگرام  کی ۱۵ برس تک قیادت کی۔ اس پروگرام کی توجہ شمسی تغیر پذیری کی سمجھ، اس کی پیش گوئی اور زمین ، انسانی ٹیکنالوجی اور خلا میں موجود خلابازوں پر پڑنے والے منفی اثرات پر مرکوز ہے۔

یہ پروگرام انٹرنیشنل لیوِنگ وتھ اے اسٹار نامی ایک پہل کی ترغیب کا باعث بنا جو دنیا بھر کی تمام خلائی ایجنسیوں کو خلائی موسم کی سمجھ کے سائنسی ہدف کے حصول میں مدد کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرواتا ہے۔ گُوہا ٹھاکرتا نے چار برس تک اس گروپ کی بطور چیئر پرسن خدمات انجام دیں اور اب بھی اس کی ہدایت کار کمیٹی کی رکن کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔

گُوہا ٹھاکرتا  سولر ٹیریسٹریل ریلیشنس آبزرویٹری ،سولر ڈائنا مِکس آبزرویٹری ، وان اَیلن پروبس ، سولر آربیٹر ، پارکر سولر پروب اور دیگر مشن ک  پروگرام سائنٹسٹ  رہی ہیں۔وہ ناسا کے ہیلیو فزکس ڈیویزن  کی ترجمان ہیں۔انہوں نے خلائی طبیعات اور موسمیات کے مرکب اس نئے شعبے کے لیے گریجویٹ سطح کی نصابی کتابیں تخلیق کی ہیں۔ گُوہا ٹھاکرتا کی تحقیق میں ایک ستارے کے طور پر سورج ، زمین پر اس کا اثر اوراس کی سب سے باہری پرت (جسیکرونا کہتے ہیں )کے مطالعے پر توجہ دی گئی ہے۔پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔

ہمیں اپنے پس منظر کے بارے میں بتائیں ۔ ہم انڈیا میں آپ کی پرورش ، سائنس میں ابتدائی دلچسپی اور دہلی یونیورسٹی میں آپ کی تعلیم کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔

جب میں بہت چھوٹی تھی یعنی تقریباََ سات برس کی ، تو کولکاتہ میں رات کے وقت آسمان کا نظارہ کیا کرتی تھی۔جب میں ستاروں کو دیکھتی تو وہی سوال دہراتی جو ناسا کے بڑے فلکی مسائل میں سے ایک ہے او ر جسے ناسا بڑے لیبل میں پوچھا کرتا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ اپنے ان ابتدائی برسوں میں بھی میں اپنے والد کو یہی سوال پوچھ کر پریشان کیا کرتی تھی۔ اب جب کہ میں بالغ ہو گئی ہوں تو مجھے معلوم ہے کہ اس سوال کا جواب دینا کتنا مشکل ہے۔ آپ صرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ زمین ایک زبردست دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی جسے بِگ بَینگ تھیوری کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ کیوں کہ سوال اب بھی برقرار ہے کہ اس سے پہلے کیا تھا؟ مگر میں نے کبھی اپنی جستجو ترک نہیں کی۔

یہ دہلی میں ہوا کہ میں نے پہلی مرتبہ علم طبیعات یا خلائی طبیعات کی پڑھائی سنجیدگی کے ساتھ شروع کی۔میں نے سائنس میں ہائیر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اور علم طبیعات میں بی ایس سی کی ڈگری کے لیے ہندو کالج میں داخلہ لیا ۔ پھر خلائی طبیعات اور عمومی نظریہ ٔ اضافیت میں ماسٹر ڈگری کے لیے میں نے دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔

پی ایچ ڈی کے لیے جب آپ امریکہ گئیں تو آپ نے سورج  کے مطالعے پر اپنی تحقیق میںتوجہ د ی ۔ آپ کی اس میں دلچسپی کیسے پیدا ہوئی اور آپ کی بعض دریافت کیا ہے؟

گریجویٹ اسکول میں مَیں نے جس مضمون کو چنا وہ سورج کا مطالعہ تھا۔ سورج وہ اکلوتا ستارہ ہے جس کا ہم بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ مطالعہ کر سکتے ہیں ۔ میری ذاتی تحقیق کئی اجزاء کی ترکیب کے کثیر طول و عرض پر مبنی مشاہدے کی جانب ملتفت رہی ہے جس میں ریڈیو سے لے کر انتہائی بالائی بنفشی شعاعوں تک تمام چیزیں شامل رہی ہیں ۔ اس کا مقصد شمسی ہواؤں کا مسکن بننے والے مقامات کی تصویر کشی کے علاوہ سورج کی باہری سطح سے بڑی مقدار میں روشنی اور توانائی کے اخراج اور ستاروں کے بیچ ان کے پھیلنے کی تفہیم ہے۔ اور اسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے متحرک ذرات اور نکلنے والی شمسی ہوا زمین اور دیگر سیاروں پر خلائی موسم کا سبب بنتے ہیں۔ زمین اور خاص طور پر ہمارے معاشرے پر ان کا سیدھا اثر پڑتا ہے ۔ اور ناسا کے  لیوِنگ وتھ اے اسٹار پروگرام کا موضوع بھی یہی ہے۔

اصل میں مَیں گریجویشن کے دوران ہی شمسی طبیعات کی ان بعض شدید قسم کے مباحث کے موضوعات کی تصدیق کی خاطر سورج کے کچھ نصف قطروں کے اندر خلائی گاڑی روانہ کرنے کے لیے سولر پروب  نام کی اس مہم کا خواب دیکھ رہی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایک وقت آئے گا جب میرا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا ۔میں بتانا چاہوں گی کہ ایک تحقیقی سائنسداں کے طور پر میں سفید روشنی اور بالائے بنفشی تابکاری میں،زمین سے گہن سے متعلق آٹھ تحقیقات میں،سورج کی باہری سطح کے مطالعے کے لیے بھیجی گئی خلائی گاڑیوں اور اسپارٹن ۲۰۱ مہموں کا حصہ رہی ہوں ۔

سنہ ۱۹۹۸ ء میں آپ نے ناسا میں کام کرنا شروع کیا، یہاں آپ کے عہدے نے آپ کو کون کون سے مواقع فراہم کیے؟ ہمیں بعض ایسے دلچسپ پروجیکٹ کے بارے میں بتائیں جن میں آپ شامل رہی ہیں ۔

ناسا کے خلائی طبیعیات کے ماہر کے طور پر مجھے ایک سائنسداں ، ایک مشن ڈیزائنر ،انسٹرومینٹ بلڈر،سائنس پروگرام کے ہدایت کاراور منتظم ، ایک استاداور  ہیلیو فزکس ڈویژنمیں ناسا کے مشن اور ویژن کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دینے کاموقع ملا ۔ کبھی کبھی تو میں نے ان تمام کاموں کو ایک ہی دن میں انجام دیا ۔

ناسا میں ہم ایسی چیزیں دیکھتے اور جانتے ہیں جسے عام لوگوں کو تجربہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر ہماری کچھ خیالی تصویریں۔لیوِنگ وتھ اے اسٹار پروگرام سے واقف کرانے اور ان لطیف و حسین تصویروں کی نمائش کے لیے میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میں نے نیویارک میں امیریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری اور واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل ایئر اینڈ اسپیس میوزیم کی شراکت داری میں افلاک نما سے متعلق دو بڑے پروگرام کوسمِک کولیشنس اور جرنی ٹو دی اسٹارس کے اہتمام میں مدد کی۔میں نے ایک  تھری ڈی آئی میکس کی تیاری اور اسٹیریو مشن  کی نمائش والے افلاک نما پروگرام  تھری ڈی سَن کے اہتمام میں بھی مدد کی۔ان پروگراموں کا اہتمام پوری دنیا میں کیا جاتا ہے ۔ ان پروگراموں سے بچے ، بوڑھے اور عام لوگ سب اس کائنات کے بارے میں کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں جن کے بارے میں جاننے کا ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ میرے خیال میں یہ سب حوصلہ افزا چیزیں تھیں۔حال ہی میں ۲۱ ؍اگست ۲۰۱۷ء کو امریکہ کو اپنی آغوش میں لینے والے مکمل گہن کی تحقیق کر رہی ٹیم کی بھی میں نے قیادت کی تھی۔

لیوِنگ وتھ اے اسٹار پروگرام کے بارے میں آپ ہمیں کچھ بتائیں ۔

ایک نئی پہل کے طور پر  لیوِنگ وتھ اے اسٹار پروگرام کی شروعات اور اس کی مالی اعانت کا اہتمام امریکی کانگریس نے سنہ ۲۰۰۰ ء میں کیا تھا۔ یہ پروگرام اپنے آپ میں اس اعتبار سے منفرد ہے کیوں کہ اس منصوبے میں پروازوں کے مشن ، ہدف پر مبنی تحقیق اور ٹیکنالوجی اور خلائی ماحولیات سے متعلق چھوٹے تجربات کی تیاری اور نئے پروگرام کے تصورات کے لیے تجربہ گاہوں کی حمایت شامل ہیں ۔ اور یہ سب معاشرتی اثر کے ساتھ سائنس کے استعمال کے مقصد کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ میرا تقرر ناسا میں پہلی پروگرام سائنٹسٹ کے طور پر ۲۰۰۱ ء میں ہوا تھا۔ ۲۰۱۶ ء تک میں یہی خدمات انجام دیتی رہی۔ فی الحال میں سلی کَون وَیلی میں ناسا ایمس ریسرچ سینٹر میں خدمات انجام دے رہی ہوں۔

یہ انتہائی بین موضوعاتی پروگرام ہے جس میں سورج اور زمین کے درمیان کی دوری اور ایک جوہر سے لے کر ایک ستارے تک کی جسامت تک کی تفریق(۱۵۰ ملین کیلو میٹر) تک مطالعات کے شعبے شامل ہیں۔سائنس کے بعض اہداف کے راست معاشرتی اثرات ہوتے ہیں۔اس میں کائناتی اشعاع اور شمسی توانائی والے ذرات کی تغیر پذیری کی سمجھ جو خلابازوں کے لیے بہت اہم معلومات ہیں، سورج اور آب و ہوا کے تعلق کی سمجھ کہ شمسی برقی مقناطیسی شعاع اور ذرات کس طرح کرہ ٔحارہ  ( تھرمو اسفیئر)،درمیانی کر ہ ہوائی یعنی فضائے درمیانی (میسو اسفیئر)،  بالائی کرہ ٔفضا اور زمین کے موسمی حالات کو متاثر کرتے ہیں، زمین کے شعاعی علاقے، جہاں خلائی گاڑیاں حسب معمول سفر کرتی ہیں، کے حالات کی پیش گوئی اور زمین کے بالائی کرہ ٔفضا پر ایس ڈبلیو ایکس کے اثرات کی سمجھ جو سیارچے کی حفاظت اور زمینی سفر جیسے جی پی ایس (گلوبل پوزیشننگ سسٹم)کے لیے کافی اہم ہیں، شامل ہیں۔

ہماری چار خلائی گاڑیاں منصوبہ بندی ، تیاری اور پروازکے مراحل میں ہیں۔ہم لوگوں نے فروری ۲۰۱۰ ء میں  سولر ڈائنامکس آبزرویٹری  اور ۲۰۱۲ ء میں  وان ایلین پروبس کا آغاز کیا تھا ۔ ہم لوگوں نے سولر پروب پلس  پر کام شروع کیا ہے جس کا آغاز  ۲۰۱۸ ء میں کیا جائے گا ۔سولر پروب پلس ، سولر سینٹی نیلس کی جگہ لینے ولا مشن ہے، جس کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔اور یہ ایک دوسرے ہیلیو فزکس مشن،اسٹیریو پروبس کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے جس کا میں حصہ ہوں۔ ایک سولر آربٹر  تیار کرنے اور اسے داغے جانے کے لیے بالآخر ہم لوگوں نے یوروپین اسپیس ایجنسی کے ساتھ شراکت کی ہے۔ سولر آربٹر سورج کے استوا کے اوپر سے شمسی سرگرمی کا مشاہدہ کرے گا۔

۲۰۱۸ ء میں آپ ناسا کے تاریخ ساز پارکر سولر پروب مشن ٹیم  کی قیادت کرنے والی ہیں ۔ اس کے بارے میں آپ ہمیں کیا مزید تفصیلات فراہم کریں گی؟

ہمارے ستارے کی فضا اس کی سطح سے ہزاروں گنا گرم کیوں ہے ؟ اورو ہ کون سی چیز ہے جو شمسی ہوا کو ہماری زمین اور ہمارے شمسی نظام کو متاثر کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے؟جیسے طبیعیات کے بنیادی معموں کے جواب کے لیے پارکر سولر پروب  ایک تاریخ ساز مشن ہے۔ دہائیوں سے ان سوالات کے جواب کے لیے ہم لوگ پریشان ہیں ۔ یہ مشن شاید اب ان سوالات کے جواب دے گا۔

۱۹۸۳ء میں جب میں گریجویشن کررہی تھی ، اسی وقت سے اس مشن کے بارے میں غور و فکر کر رہی ہوں اور سورج کی باہری سطح  کرونا کی خصوصیات اور تیز شمسی ہوا اور ہیلیو اسفیئر(بشمول نظام شمسی خلا کا وہ حصہ جس میں شمسی ہوائیں خاص اثر رکھتی ہیں) میں اس کی توسیع پر نظریاتی تصورات کے تعلق سے کام کر رہی ہوں ۔

۲۰۰۱ ء میں جب سے میں لیوِنگ وتھ اے اسٹار پروگرام پر کام کررہی ہوں ، میں نے اس مشن کے پروگرام سائنٹسٹ کی بھی ذمہ داری نبھائی ہے ۔ اسی وقت سے پارکر سولر پروب پروگرام کو ایک ایسے مقام تک لے جانے میں مجھے کافی وقت لگا اور مسلسل مطالعہ بھی کرنا پڑا جہاں یہ تکنیکی اعتبار سے قابلِ حصول اور مالی طور پر قابلِ عمل بھی ہو۔  پروگرام سائنٹسٹ  کے طور پر میں اس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنے ارادے میں ثابت قدم رہی۔۲۰۱۰ء میں ناسا نے اس مشن کے لیے انسٹرومینٹ پے لوڈ  کو چنا اور اب جولائی ۲۰۱۸ ء تک اس مشن کے شروع ہونے کی امید ہے۔ میں جب اپنے بچپن کو یاد کرتی ہوں تو مجھے یہ بالکل ناقابل یقین سا لگتا ہے کہ اس وقت میں صرف ستاروں کو دیکھا کرتی تھی اور اب انہیں میں سے ایک ستارے پر میں پہلی خلائی گاڑی روانہ کرنے والی ہوں۔

ناسا میں کام کے علاو ہ کیا آپ خلائی طبیعیات میں تعلیمی طور پر منسلک ہیں؟

ہیلیو فزکس(سورج کے نظام شمسی پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ)کی پانچ نصابی کتابیں تیار کرنے ، موسم گرما کے نصاب پر کام کرنے اوربین موضوعاتی علمی سائنسدانوں کی اگلی نسل کی تربیت سازی کے لیے پچھلے ۱۱ برس سے میں نے یونیورسٹی کارپوریشن فار ایٹموسفیئرک ریسرچ(یو سی اے آر) کے ساتھ کام کیا ہے۔ یہ پروگرام طلبہ اور گریجویشن کررہے طلبہ کو پڑھانے والے اساتذہ کو  ہیلیو فزکس کا ایک وسیع اور واضح شعبے کے طور پرمطالعہ کرنے کا خصوصی موقع دیتا ہے ، ایک ایسے شعبے کو جاننے کا موقع جس کا پھیلاؤزمین کے کرۂ اوّل سے لے کر سورج کی گہرائیوں تک ہے اور اس کا زمانہ نظام ِ شمسی کی تخلیق کے عہد سے لے کردور مستقبل تک ہے۔ اس کے ساتھ موسم گرما کے اسکول کا ایک مقصد گریجویشن میں طلبہ کو تعلیم دینے والے اساتذہ کو طبیعات ، خلائی سائنس اور ارضیاتی سائنس کے نصاب میں ہیلیو فزکساور  ایسٹرو فزکس  کی مثالوں کو شامل کرنے کے لئے پیشہ ورانہ ترقی سے متعلق مواقع فراہم کرنا ہے۔

ہیلیو فزکس سلسلے کی چوتھی جلد کے طور پر  اَیکٹِو اسٹارس ، ان کی فلکی طبیعات اور سیّاروں کے ماحول کے اثرات واضح طور پر تحقیق کے ایک نئے شعبے  کمپریٹِو ہیلیو فزکس کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔اب جب کہ انسان اور اس کے ذریعہ بنائے گئے روبوٹ پورے نظامِ شمسی میں پھیلے ہوئے ہیں ، لہٰذا ہم جہاں کا دورہ کرتے ہیں وہاں کی چیزوں کو سمجھنے اور وہاں کے خطرات کا اندازہ لگانے کے لیے ہمیں اسی طرح کے بین موضوعاتی علمی طریقوں کی ضرورت پڑے گی ۔ جیسے کہ ٹائٹن پر آج کس طرح کا موسم ہے ؟نظام ِ شمسی کس طرح یورپ کی برف پر اثر انداز ہوگا ؟کیا اُس دُمدار تارے پر اترنا محفوظ ہے؟

ناسا میں اور اس کے باہر آپ کے کیا مستقبل کے منصوبے ہیں؟

میں نے شمسی اور زمینی طبیعات کے غیر متجانس ریشوں کا ایک ساتھ خاکہ کھینچا ہے اور خلا ئی موسمیات یا خلائی موسم کو سمجھنے کے حتمی ہدف کے ساتھ بین الاقوامی تعاون پر زور دیاہے۔میرے دل کے قریب رہنے والا  سولر پروب پلس مشن   ۲۰۱۸ ء میں شروع ہونے والا ہے۔یہ مشن سورج کوبھی چھوئے گا ، ساتھ ہی اشعاع کے ماحول کی بہتر وضاحت اور پیش گوئی میں تعاون کرے گا جس میں مستقبل کے خلائی تجربات عمل میں آئیں گے۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ تمام کوششیں انسانوں کو زمین پر رہنے والی مخلوق سے خلا میں سفر کرنے والی مخلوق بننے میں مدد کریں گے۔

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے