پسماندہ بچوں کو تعلیم دے کر بااختیار بنانا

چنئی میں واقع امریکی قونصل خانے سے مالی امداد یافتہ ویمن اِن انڈیا سوشل انٹر پرینر شپ نیٹ ورک کی فیض یافتہ جِگّیاسا لبرو کا ادارہ ’سلَیم آؤٹ لاؤڈ ‘ فنون لطیفہ کی تعلیم کے ذریعہ پسماندہ بچوں کو بااختیار بنا رہا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

October 2023

پسماندہ بچوں کو تعلیم دے کر بااختیار بنانا

جِگّیاسا لبرو(مرکز میں) ’سلَیم آؤٹ لاؤڈ‘ کے شرکاء کے ساتھ۔(تصویر بشکریہ سلَیم آؤٹ لاؤڈ)

ملک  میں پسماندہ بچوں کی مدد کے لیے فنون لطیفہ کا استعمال کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم ’ سلَیم آؤٹ لاؤڈ‘ کا مشن ہے : ’’ ہر جگہ لوگوں کے پاس ایک آواز کی دستیابی جس سے انہیں زندگی تبدیل کرنے کی طاقت ملے۔‘‘

’سلَیم  آؤٹ لاؤڈ ‘ کی شریک بانی اور چیف ایکزیکٹیو آفیسرجِگّیاسا لبرو  بتاتی ہیں کہ ان کا ادارہ پورے ملک میں پسماندہ طبقات کے بچوں  کی زندگیوں کو فنونِ لطیفہ اور سماجی وجذباتی تدریس  کے ذریعہ بدل ڈالنے پر کمربستہ ہے۔ ادارہ فنونِ لطیفہ کے مدرسین کو تربیت دیتا ہے کہ وہ کم آمدنی والے طبقات کے اسکولوں میں کام کریں ۔ اس کام کے لیے وہ انہیں آن لائن دستیاب  فنونِ لطیفہ کے وسائل مہیا کرواتا ہے ۔ ایسا کرکے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے شاعری اور قصہ گوئی کے سہارے پروان چڑھیں۔

چنئی میں واقع امریکی قونصل خانے سے مالی امداد یافتہ ویمن اِن انڈین سوشل انٹرپرینرشپ نیٹ ورک (وائسین) پروگرام میں شرکت کرنے والی لبرو کا کہنا ہے کہ فنون کے بارے میں سیکھنے سے بچوں کو مشکل حقیقتوں کا مقابلہ کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لبرو کہتی ہیں کہ فنون لطیفہ کی تعلیم بچوں کو ’’تشدد کے بغیر تنازعات کو حل کرنے، اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے اور انسانی وجود کے مختلف پہلوؤں میں فعال طور پر مصروف  ہونے‘‘  کے لیے بااختیار بناتی ہے۔وہ مزید کہتی ہیں  ’’ہمارا ماننا  ہے کہ سماجی و جذباتی تعلیم اور فنون لطیفہ  سے روشناس ہونے والے بچے معاشرے کے تمام شعبوں میں رہنما، تبدیلی لانے والے اور ثقافتی مہتمم بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘

جھگی بستی کی جڑیں

دہلی کے کم آمدنی والے ایک علاقے میں سیکنڈری اسکول کی معلّمہ  کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعدلبرو کو ’سلَیم آؤٹ لاؤڈ ‘کو مشترکہ طور پر قائم کرنے کی تحریک ملی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس تجربے نے انہیں ’’طاقت اور استحقاق کے سوالات سے روبرو کرایا۔‘‘

اپنے طلبہ کو علمی میدان میں کامیابی کے ساتھ موسیقی اور شاعری سے متعارف کرانے کی خواہش کی تکمیل کے لیےلبرو نےملک گیر پیمانے پر شاعری کی ورکشاپ کا انعقاد کرنا شروع کیا۔ انہیں  ورکشاپس میں سے ایک نے ان کی زندگی بدل دی۔

لبرو کہتی ہیں کہ انہوں نے ۲۰۱۷ء میں ’’بچوں میں فنون پر مبنی اظہار کے لیے انتخاب میں عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے‘‘ اپنا غیر منافع بخش ادارےکا باضابطہ آغاز کیا۔

تبدیلی کے لیےرابطہ سازی

۲۰۲۰ء میں وائسین پروگرام میں حصہ لینے سے لبرو کو ’’ان  شاندار خواتین سے ملاقات میں مدد ملی جو نہ صرف اپنے کام سے بلکہ اپنے طرز زندگی سے بھی‘‘ معاشرتی اصولوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان رابطوں کے ذریعے انہوں نے حقوق نسواں کی قیادت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں اور یہ بھی جانا کہ ایسی ٹیمیں بنانے کے لیے کیا کرنا پڑتا  ہے جو اداروں کے ویژن  اور مشن کو اپنے مقصد کے ساتھ متوازن رکھتی ہیں۔

لبرو کہتی ہیں کہ وہ گروپ میں خواتین کے تنوع سے بھی متاثر ہوئیں۔ شرکاء مختلف پس منظر سے آئے تھےجنہوں نے خواتین رہنما ہونے کے بارے میں اہم نقطہ نظر پیش کیا۔

آئندہ برسوں میں لبرو کو امید ہے کہ وہ ہند  میں فنون لطیفہ کی تعلیم کو سرکاری اسکولوں کا بنیادی حصہ بنانے اور ۲۰۲۵ء تک ۲۰ ملین بچوں تک آرٹس کی تعلیم پہنچانے کے لیے ریاستی حکومتوں کو راضی کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں، تجربے اور رابطوں کو بروئے کار لائیں گی۔  ان  کی آرزو ہے کہ مزید لڑکیوں اور خواتین کو مثبت تبدیلی کا سبب بنتے  ہوئے دیکھیں۔

لبرواس بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک مؤثر سماجی کاروباری  پیشہ ور بننے کے لیے ’’برسوں کے عزم، زندگی بھر کی آموزش ، مختلف شعبوں میں لوگوں کے ساتھ تعاون اور نیٹ ورکنگ، لامحدود امید اور ناکامی کو انجام کے طور پر نہ دیکھنے کی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

وہ کہتی ہیں ’’تبدیلی دہائیوں میں بتدریج  ہوتی ہے اور آپ کو ایک رہنما اور تبدیلی ساز کے طور پر تحمل اور لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘‘

راہ  آسان نہیں ہو سکتی ہے، لیکن یہ بہت فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’خود کو جانیں، اپنے جذبے کو گلے لگائیں، خود کو تعلیم دیں، معاون نیٹ ورک بنائیں اور یقین کی جست لگائیں۔‘‘

آج’ سلَیم  آؤٹ لاؤڈ ‘نے فنون لطیفہ کی تعلیم کو پسماندہ طبقات  تک پہنچانے میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ لبرو کہتی  ہیں ’’ہماری جیجی وِشا فیلوشپ اب چار شہروں میں ایک کُل وقتی پروگرام ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمارے آرٹسٹ فیلو رواں سال چار ہزار سے زائد بچوں کے لیے کلاس میں سماجی و جذباتی تعلیم اور فنون لطیفہ کی تعلیم کی سہولت فراہم کریں گے۔‘‘ اپنے قیام کے بعد سے ’سلَیم  آؤٹ لاؤڈ‘ ملک کی ۲۳ ریاستوں اور ۱۹ ممالک میں ۱۰ ملین سے زیادہ بچوں تک رسائی حاصل کر چکا  ہے۔

لبروکہتی ہیں کہ وہ ان  چھوٹی لیکن اہم تبدیلیوں کو دیکھنا پسند کرتی ہیں جن کی پیمائش ’سلَیم  آؤٹ لاؤڈ‘کر سکتا ہے اور وقت کے ساتھ ان کوششوں کا اہم اثر پڑتا ہے۔  وہ کہتی ہیں ’’ہم زندگی کی چھ مہارتوں کا جائزہ لے کر بچوں میں تبدیلی کی نگرانی کرتے ہیں۔ ۲۰۲۱ء اور ۲۰۲۲ءمیں ہمارے جائزوں نے تخلیقی اعتماد کی مہارتوں میں ۲۶ فی صد  اضافے کا مشاہدہ کیا  جس میں مواصلات اور خود اعتمادی میں سب سے زیادہ بہتری آئی اور تخلیقی صلاحیتوں اور تنقیدی سوچ میں ۲۰ فی صداضافے کی نشاندہی ہوئی ۔‘‘

مائیکل گیلنٹ نیویارک سٹی میں مقیم قلمکار، موسیقار اور کاروباری پیشہ ور ہیں۔


اسپَین نیوزلیٹر کو اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے