شہروں کو محفوظ بنانا

ڈیجیٹل پلیٹ فارم سیف سٹی افراد اور برادریوں کی جنسی استحصال کی اطلاع دینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ دنیا کو سب کے لیے ایک محفوظ مقام بنایا جاسکے۔

برٹن بولاگ

December 2021

شہروں کو محفوظ بنانا

 

ہراساں کیے جانے کے معاملات کی رپورٹنگ سیف سٹی اَیپ کے ذریعہ یا اس کی ویب سائٹ کے ذریعہ کی جا سکتی ہے۔ تصویر بشکریہ سیف سٹی۔ 

کئی  خواتین کے لیےجنسی ہراسانی ان کی  روز مرہ کی زندگی میں مستقل خطرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی کاروباری پیشہ ور السا میری ڈی سلوا  نے    سیف سٹی کے نام سے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم قائم کیا جوجنسی ہراسانی سے متعلق رپورٹ یکجا کرتا ہے اورہراسانی کے  واقعات کو نقشے پر دکھاتا ہے۔ پلیٹ فارم کی بانی ڈائریکٹر ڈی سلوا کا کہنا ہے کہ وہ ۲۰۱۲ء میں نئی ​​دہلی کی بس میں نربھیا کی بدنام زمانہ عصمت ریزی اور قتل کے واقعے سے متاثر ہوئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’اس واقعے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

سیف سٹی کمیونٹی تنظیموں کو ہراسانی کی اونچی شرحوں والے مقامات  میں بہتر تحفظ کی وکالت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم عوام کو ایک ایسے مسئلے کے بارے میں بھی حساس بناتا ہے جو اکثر پوشیدہ رہتا ہے، کیونکہ متاثرین حملوں کے بعد خاموشی  اختیار کر لیتے ہیں اور حملوں کی رپورٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں سیف سٹی کے آغاز کے بعد سے تقریباً ۳۵۰۰۰واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم کینیا، نیپال، کیمرون، ملیشیا، نائجیریا، اور ٹرینیڈاڈ اور ٹوبیگو  میں شراکت دار تنظیموں کے ذریعے شروع کیا گیا ہے۔

تو یہ کیسے کام کرتا ہے؟ لوگ سیف سٹی  ایپ پر یا پروگرام کی ویب سائٹ پر جا کر واقعات کو رپورٹ کر سکتے ہیں۔ رپورٹنگ گمنام طریقے پر کی جا سکتی ہے، لیکن ایپ ان واقعات کی اطلاع دینے والوں سے ان کی  عمر اور جنس،واقعے  کا وقت اور تاریخ فراہم کرنے اور زمروں کے ڈراپ ڈاؤن مینو سے واقعے کی نوعیت  کا انتخاب کرنے کو کہتا ہے۔

سیف سٹی کی ویب سائٹ کے مطابق ’’ اپنے تجربے ساجھا کرنے  سے ہمیں نوعیتوں کی شناخت کرنے اور محفوظ جگہیں بنانے میں مدد ملتی ہے۔ معلومات کا تجزیہ ہماری برادریوں کو حل تلاش کرنے اور ہمارے شہری اور پولیس اہلکاروں کو جوابدہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘‘

سیف سٹی کو اپنے کام کرنے کے عشرے  میں کئی  کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر، کمیونٹی گروپوں  نے مخصوص  علاقوں کی نگرانی کے لیے کلوز سرکٹ کیمرے نصب کرنے کے لیے رقم اکٹھی کی ، اسٹریٹ لائٹنگ کو بہتر بنایا ہے اور روشنیوں کو روکنے والے درختوں کو ہٹا دیا ہے۔ انہوں نے مقامی پولیس کو متاثرہ علاقوں میں گشت بڑھانے کی خاطر منانے کے لیے ہراساں کیے جانے کے اعداد و شمار کا استعمال بھی کیا ہے۔

سیف سٹی   ڈیٹا  کا سب سے پہلے  استعمال ممبئی کے باندرہ علاقے میں کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ  چین چھینے جانے اور رہزنی کی واقعات کی زد میں تھا اور کمیونٹی رہنماؤں نے بیک وقت معمولی جرائم اور جنسی ہراسانی دونوں کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

جب پولیس کو کمیونٹی میٹنگوں میں مدعو کیا گیا تو انہوں نے شروع میں کہا کہ وہ کسی مسئلے سے لاعلم ہیں کیونکہ انہیں بہت کم شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ڈی سلوا کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ متاثرین اکثر یہ محسوس کرتے تھے کہ انہیں پولیس کے پاس جانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا  ہے۔ ڈی سلوا کہتی ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ وہ پولیس کے چکر میں اپنا وقت گنوانے کی بجائے سونے کی چین کا کھو جانا یا چھین لیا جانا پسند کرتے ہیں۔

لیکن پولیس پر دباؤ رنگ لایا۔ وہ بتاتی ہیں ’’ ہم نے پایا کہ جب لوگ سرگرم ہوتے ہیں تو پولیس دلچسپی لیتی ہے اور رہزن دور رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی نگرانی کی جارہی ہے۔ ‘‘ نتیجے کے طور پر واقعات میں کافی  کمی آئی ہے۔

 

سیف سٹی اور ریڈ ڈاٹ فاؤنڈیشن(اس کی مدد کے لیے قائم کی گئی ایک غیر منافع بخش تنظیم) نے لڑکیوں کے کالجوں کے باہر دیواروں پر اور مصروف چوراہوں پر بڑے بڑے آرٹ ورک آویزاں کیے تاکہ ہراسانی کے سلسلے میں بیداری پیدا کی جائے اور لوگوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ تصویر بشکریہ سیف سٹی۔

سیف سٹی اور  ریڈ ڈاٹ فاؤنڈیشن( جو اس کی حمایت کے لیے بنائی گئی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے) نے بیداری پیدا کرنے اور رویے کو تبدیل کرنے کے لیے لڑکیوں کے کالجوں کے باہر دیواروں اور مصروف چوراہوں پر بڑے آرٹ ورک لگانے سمیت دیگر اقدامات کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، گھورتی ہوئی آنکھوں والے ایک بڑے چہرے کے ساتھ کیپشن ہے ’’اپنے دل سے دیکھو‘‘ اور ایک خاتون کو جنسی لذت کی خاطر  ٹٹولنے  کی شبیہ کے ساتھ یہ فقرہ ’’ کیا یہ درست ہے؟‘‘

تقریبات، ورکشاپوں  اور مباحثوں کے ذریعے ریڈ ڈاٹ فاؤنڈیشن  لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ عوامی اور نجی جگہوں کو کیسے محفوظ بنایا جائے۔ دسمبر ۲۰۲۱ءمیں ایک سائبر سیفٹی ورکشاپ میں پروتساہن انڈیا فاؤنڈیشن کے اشتراک  سےنوجوان خواتین نے سیکھا کہ آن لائن ہراساں کرنے کی شکلوں کی شناخت کیسے کی جائے، آن لائن ہراساں کیے جانے کی اطلاع کیسے دی جائے اور سوشل میڈیا کو محفوظ طریقے سے کیسے  استعمال کیا جائے ۔سیف سٹی  ویب سائٹ شرکاء کے تاثرات نوٹ کرتی ہے کہ ورکشاپ کے دوران سرگرمیوں سے انہیں کس طرح فائدہ ہوا۔ تبسم کہتی ہیں ’’ مجھے اپنے ڈیجیٹل حقوق کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی ۔ سیشن کے بعد مجھے لگتا ہے کہ یہ اسباق میری ذاتی ترقی میں مدد کریں گے اور مواقع کے بہت سے دروازے کھولیں گے‘‘۔ ورک شاپ میں  شرکت کرنے والی ایک اور خاتون شبینہ کہتی ہیں ’’ مجھے انٹرنیٹ کی دنیا میں ہونے والے جرائم کے بارے میں اتنی معلومات نہیں تھی، لیکن سیشن اور سرگرمیوں کے بعد مجھے لگتا ہے کہ میں اب اس موضوع کو  بہترطور پر جانتی ہوں۔‘‘

ایک اور پہل کے تحت   مہاراشٹر کے ستارا  میں ریڈ ڈاٹ فاؤنڈیشن نے اسکول اور کالج کے طلبہ کو بچوں کے تحفظ کے بارے میں بیداری پھیلانے اور محفوظ کیمپس بنانے کی خاطر دیگر طلبہ اور ان کی برادری کے لوگوں تک پہنچنے کے لیے تربیت دی۔ تربیتی سیشنوں  میں جنسی ہراسانی، جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ سے متعلق  قانون (پاسکو  ایکٹ)، دماغی صحت، سوشل میڈیا کے استعمال اور دفاع نفس  جیسے موضوعات شامل تھے۔ یوگیتا کھراڈے نے سیف سٹی کی ویب سائٹ پر ایک تصدیق نامے میں کہا ’’پہلے جب مجھے کسی بھی چیز کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا تو مجھے شرم اور خوف محسوس ہوتا تھا۔ کثرت سے عصمت دری کی خبروں نے میرے اندر اپنی حفاظت کے بارے میں خوف پیدا کر دیا تھا۔ اس سے  میری خود اعتمادی بھی کم ہو گئی تھی ۔ پچھلے کچھ مہینوں کے دوران جب سے میں سیف کیمپس پروجیکٹ سے منسلک ہوئی ہوں، میں کہہ سکتی ہوں کہ میں بدل گئی ہوں۔ میں اب  باہر جانے سے کم ڈرتی ہوں کیونکہ میں اپنے حقوق جانتی ہوں اور میں ہراساں کیے جانے کے بارے میں جانتی ہوں۔‘‘

سیف سٹی کے قیام سے قبل  ڈی سلوا نے ہوا بازی کے شعبے میں ۲۰ سال گزارے، جس کا اختتام کنگ فشر ایئر لائنز کے لیے نیٹ ورک پلاننگ کے نائب صدر کےعہدےکے لیے تقرر پر ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے پہلے دو سالوں میں  اپنی  جیب سے پلیٹ فارم کی مالی اعانت کی۔ اب حمایت  واشنگٹن، ڈی سی میں واقع غیر منافع بخش تنظیم’ وائٹل وائسز ‘این جی او اور دہلی میں امریکی سفارت خانہ سمیت خاص   طور پر بین الاقوامی اعانت کاروں سے ملتی ہے۔

۲۰۱۶ءمیں ڈی سلوا نے’  فارچیون یو ایس   ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ گلوبل ویمنز مینٹورنگ پارٹنرشپ‘ میں حصہ لیا، امریکہ میں چھ ہفتے گزارے جس کی رہنمائی سینڈرا (سَینڈی) ای پیٹرسن، جانسن اینڈ جانسن کے اس وقت کے گروپ ورلڈ وائیڈ چیئرمین کے ذریعے کی گئی۔  وہ کہتی ہیں ’’میں نے جانسن اینڈ جانسن کے ساتھ اپنے وقت سے بہت کچھ سیکھا اور یہ بھی سیکھا کہ آپ ایک ایسی تنظیم کیسے بناتے ہیں جو وقت کی کسوٹی پر کھری اترے ، اگرچہ وہ ایک غیر  منافع بخش اور کم وسائل والی غیر سرکاری تنظیم ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزادپیشہ  صحافی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے