آپ کو اور کیا چاہیے؟ اکثر ایک آسان سے سوال سے بڑے بڑے خیالات پیدا ہوتےہیں جن سے صنفی بااختیاریت، خود مختاری اور مواقع میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے۔
December 2021
کیتھلین مُلّی گن (بلو رنگ کے لبا س میں) وہیل فار وِمین کے تحت تربیت لینے والی خواتین کے ساتھ۔ تصویر بشکریہ کیتھلین مُلّی گن۔
ایتھاکا کالج کے ڈیپارٹمنٹ آف تھیٹر آرٹس میں صدا اور خطاب کی پروفیسر کیتھلین مُلّی گن ’وہیلس فار وِمین‘ کے متعلق بتاتے ہوئے کہتی ہیں’’کیرل میں واقع سکھی پناہ گاہ نے مجھے گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو اپنی ورکشاپ پڑھانے کے لیے مدعو کیا۔ سکھی پناہ گاہ ثقافتی اکادمی برائے امن کے زیر اہتمام ہے جس کی سربراہ اس کی بانی بینا سبیسٹین ہیں۔ میرے خاوندڈیوڈ بھی میرے ہمراہ تھے مگر کلاس کے دوران انہوں نے فاصلہ رکھا۔ وہ پناہ گاہ میں چل رہے کام سے بے پناہ متاثر ہوئے۔ ورکشاپ سے واپسی کے دوران کیب میں ڈیوڈ نے بینا سے سوال کیا: آپ کو مزیداور کیا چاہیے؟‘‘
اس کی صراحت کرتے ہوئے وہ بینا کہتی ہیں ’’ ہمیں رات میں جابہ جاگھریلو تشدد کی شکار خواتین کے فون آتے ہیں کہ انہیں گاڑی چاہیے۔ ہمیں ان کے فون کا جواب دینا ہوتا ہے اور انہیں محفوظ طریقے پر وہاں سے لانا ہوتا ہے تاکہ انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔‘‘
مُلّی گن اور ان کے خاوند نے عزم مصمم کیا کہ وہ پناہ گاہ کے لیے ایک گاڑی ضرور خریدیں گے۔ جب وہ امریکہ واپس ہوئے تو انہوں نے مقامی سمر تھیٹر سے رابطہ کیا تاکہ سستی ٹاٹا نینو کار خریدنے کے واسطے مطلوبہ رقم جمع کی جا سکے۔ مُلّی گن نے تھیٹر طلبہ کے ساتھ کام کیا اور انہیں ان خواتین اور بچوں کی کہانیاں بتائیں جن سے انہوں نے اور ان کے خاوند نے ملاقاتیں کی تھیں اور اس کار خیر میں مصروف افراد کی بے لوث خدمات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا ’’پرفارمنگ آرٹس کے طلبہ آپ کے لیے آپ کا کریئر کافی مشقت طلب ہوتا ہے کیوں کہ ملازمت تلاش کرنے میں آپ کو کافی وقت لگتا ہے ۔ میں چاہتی تھی کہ میرے طلبہ اپنی توجہ کسی اور کی جانب مرکوز کریں تاکہ ان لوگوں کی زندگیوں میں خاطر خواہ تبدیلی لائی جا سکے۔ وہ بہ رضا و رغبت اس پر آمادہ ہو گئے۔‘‘
مُلّی گن اور ان کے طلبہ نے اپنی توقع سے بھی دو گنا رقم اکٹھا کی۔ وہ بتاتی ہیں ’’ اس رقم سے ہم نے ایک بڑا آٹو رکشہ خریدا اور بس یہیں سے یہ خیال آیا کہ خواتین کو لائسنس والے آٹو رکشہ ڈرائیور بننے کی تربیت دی جائے۔‘‘
وہیلس فار وِمین کا ماننا ہے کہ خواتین کو معاشی طور پر با اختیار بنانا بہت اہم ہے۔ مُلّی گن وضاحت کرتی ہیں ’’معاشی خود مختاری سے ہی انتخاب کی آزادی بھی آتی ہے۔ معاشی خود مختاری کے بعد ایک خاتون اپنی ضروریات کے لیے کسی دوسرے شخص پر انحصار نہیں کرتی۔ ‘‘
وہ بتاتی ہیں کہ ایک خاتون جس نے آٹو رکشہ ڈرائیور بننے کی تربیت حاصل کی تھی ،اس کے دو بچے تھے اور اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ اب اس کا اپنا پھلتا پھولتا کاروبار ہے۔ اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہے اور اس کے بچے کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد آٹو رکشہ ڈرائیور بھی اس کی حمایت اور مدد کرتے ہیں۔ وہیلس فار وِمین کے شرکا میں دیکھا گیا ہے کہ معاشی خود مختاری کے سبب بہت ساری خواتین میں مواقع اور خود مختاری اور آزادی پیدا ہوئی ہے۔
۲۰۲۰۔۲۰۱۹میں مُلّی گن کو فلبرائٹ۔ نہرو اسکالر شپ سے نوازا گیا۔ اس وقت انہوں نے ’’ پورے امریکہ میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فائنڈ یور وائس (اپنی آواز پہچانو) ور کشاپس کا انعقاد کیا۔ کورنیل یونیورسٹی میں منعقد کی گئی ورکشاپ کے بیشتر شرکا کا تعلق بھارت سے تھا۔ اپنے ملک میں پلنے بڑھنے کے دوران ان کو درپیش مسائل سے لے کر اپنی منفرد شناخت قائم کرنے تک کی کہانیوں سے ترغیب پاکر انہوں نے فیلو شپ پروگرام کے لیے درخواست دی اور بھارت پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ مُلّی گن اپنی فیلو شپ کے آغاز سے اب تک دو مرتبہ بھارت کا سفر کر چکی ہیں اور ان کا ارادہ ایک بار پھر جلد واپس آنے کا ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ میرا جنون ہے کہ میں تھیٹر کے وسیلے سے کہانیاں سناؤں اور ذہنوں میں تبدیلی لاؤں تاکہ کمزوروں اور ناداروں جیسے بچوں ، خواتین اور پسماندہ طبقات کے افراد یا جانوروں کو بدسلوکی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ ‘‘
رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ افسانوی ادب کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں لکھتی ہیں۔
تبصرہ